Sunday 10 February 2013

میں تو دیکھوں گا ۔۔۔ تم بھی دیکھو گے....


انتخابات کوئی بھی جیتے، میری بلا سے! برسر اقتدار کوئی بھی آئے، مجھے کیا؟ اب یہ بھی پوچھ لیں کہ میری بلا سے کیوں اور مجھے کچھ کیوں نہیں؟ وہ اس لیئے کہ جب انھیں لوگوں نے واپس پلٹ کے آجانا ہے جو لاشوں کی سیاست اور لاشوں پہ سیاست کرتے ہوں، قوم کو سادگی کا درس دے کر خود اپنے جلسوں میں کنڈے کی بجلی پہ چلا چلا کہ کہہ رہے ہوں کہ حکومت بجلی بحران کی ذمہ دار ہے، اور روٹی کپڑا مکان کا وعدہ والے، پھر کہہ دیں کہ سائیں، وعدہ کوئی قرآن و حدیث تو نہیں! تو پھر انتخابات کوئی بھی جیتے، میری بلا سے! برسر اقتدار کوئی بھی آئے، مجھے کیا؟

ہاں لیکن اگر لوگ آئیں مجھ جیسے، آپ جیسے، جو سی این جی کی لائن میں گھنٹوں جتے رہیں، جو دہرے کیا، تہرے بلکہ تہہ در تہہ تعلیمی نظام کی گنا مشین میں پسنے کے باوجود ملک میں رہنے کو ترجیح دیں، اور جو بجلی پانی گیس جیسے من و سلویٰ کو ایسے ترسا دئیے جائیں جیسے یہ نعمتیں ان کے لیئے شجرہ ممنوعہ ہوں، پیچھے مڑ کے ان نعمتوں کی جانب دیکھا تو پتھر کے ہوجائیں! ہاں اگر ایسے لوگ آئیں تو مزہ آئے ناں!



ٹیکسی ڈرائیور ہوں ، پشاور میں جائنٹ سیکرٹری کا امیدوار ہوں


نجی اسکول کا پرنسپل ہوں، ٹاون ٹو کا صدارتی امیدوار ہوں


ڈرائیور ہوں چینج کے لیے انتخابات لڑ رہا ہوں


میں دکاندار ہوں ہم روایتی سیاست دانوں سے تنگ آ چکے ہیں
  
یقین مانیئے کہ جتنا سکون ان غیر روایتی امیدواروں کی امیدوں کو دیکھ کر ہوتا ہے، اتنا ہی سکون ان کے حلقہ والوں کو ہوگا، گر یہ کامیاب ہوئے، نہیں بھی ہوئے تو کیا ہوا، روایتی پیری مریدی جاگیرداری سیاست کی اس بلٹ پروف گاڑی کو کچھ تو ڈینٹ لگے گا! بطور ڈرائیور انھیں اندازہ ہوگا کہ گھنٹوں سی این جی کی لائن میں لگے رہنا اور باری آنے پر پیچھے سے پریشر کی کمی کا سامنا کرنے میں کیسا لگتا ہے ۔۔ بطور استاد انھیں اندازہ ہوگا کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے بجائے جب روایت کے نام پہ ہتھیار ہمارا زیور ہے کے بھدے اصولوں سے معصوم ذہنوں کو معدوم کیا جاتا ہے، تو کیسا لگتا ہے


ہوا کچھ یوں کہ پشاور میں تحریک انصاف نے ضلع اور ٹاؤنزکی سطح پر انتخابات منعقد کیے، جس میں 48 عہدوں پرکم و بیش سوامیدوار میدان میں اترے۔  انتخابات میں ایک طرف  امیر اور مشہور گھرانوں کے افراد بطور امیدوار نظر آئے تو ساتھ ہی ٹیکسی ڈرائیورز، دکاندار اور شعبہ تعلیم سے وابستہ  اشخاص بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
شاہ نواز، جو ٹیکسی چلاتا ہے، پشاور کے جوائنٹ سیکریٹری کا امیدوار ہے، شاہ نواز کہتا ہے کہ اسے امید ہے کہ تبدیلی ضرور آئے گی








 








ایسے ہی خیالات اسکول پرنسپل ہدایت الرحمان صاحب کے بھی ہیں، جو ٹاؤن ٹو کے صدارتی امیدوار ہیں



جبکہ بی اے پاس توصیف پر عزم ہیں کہ کوئی بھی مد مقابل آئے،
 اب فتح ان ہی کی ہوگی اور وہ چینج یعنی تبدیلی کیلیئے کھڑے ہوئے ہیں

گل حبیب دکانداری کرتے ہیں، اور سیکرٹری لیبر کے امیدوار ہیں


 اب ان افراد کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، مجھے صرف اس بات کی خوشی ہے کہ سیاسی جماعتوں نےعام آدمی کے ساتھ ملیچھ جیسا سلوک کرنا تو ترک کیا، چاہے تحریک انصاف ہو یا کوئی بھی جماعت۔۔۔ کم از کم عام آدمی کو آدمی تو سمجھا گیا ۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے فقط ووٹ کی پرچی تک محدود رہنے والے اس چوپائے کو محظ کاغذ کا ٹکڑا ہی سمجھا جاتا تھا ۔۔۔ شاید پہلی بار میں اتنی بڑی تبدیلی نہ آسکے، شاید یہ تمام افراد ہار جائیں، لیکن ۔۔۔۔ میں تو، ان انتخابات میں ۔۔ انھیں اور ان جیسوں کو، بھرپور طریقہ سے لڑتے ہوئے ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔ میں تو دیکھوں گا، میں تو دیکھوں گا ۔۔۔ تم بھی دیکھو گے۔۔۔۔۔



5 comments:

  1. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  2. Well said Fasil. You deserve the appreciation for writing the truth. By the way i also voted in PTI elections even though i am not big supporter of PTI.
    Please do write about PPPP elections those were done in few mints.

    ReplyDelete
    Replies
    1. thnku Ahmad, I would surely write about all :)

      Delete