Thursday 14 February 2013

پنک پینتھر کارٹون والی ٹرین سروس


کارٹون تو سب کو اچھے لگتے ہیں، تو مجھے بھی اچھے لگتے ہیں ۔۔ میں تو اب بھی دیکھتا ہوں ۔۔۔ بچپن سے۔ تو جب میں تیسری جماعت میں تھا، میرے برابر میں بیٹھنے والے بچے کے پاس پنک پینتھر والا انسٹرومنٹ باکس تھا، مہنگا والا، ٹرین جیسا انسٹرمنٹ باکس، شروع میں پنک پینتھر کے منہ والا انجن، جس میں شارپنر لگا تھا، اور سامنے سے کھلنے پہ ربر بھی باہر آجاتا تھا، پھر ایک پوری بوگی تھی جس میں اسکیل مارکر اور دیگر لوازمات ہوا کرتے تھے۔ اور مجھ ندیدے کی نیت ہر وقت اس باکس پہ لگی رہتی تھی، کتنا اچھا تھا ناں ۔۔ پنک پینتھر کارٹون والی ٹرین والا باکس



مجھے یہ تو نہیں پتہ تھا کہ میں کبھی ایسے کارٹون والی ٹرین لے سکوں گا یا نہیں، ہاں لیکن مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا، کہ کارٹون جیسے وزرا، پاکستان ریلوے کا حال بھی کارٹون جیسا کردیں گے۔ کیوں کہ، کارٹون میں تو سپر مین، ٹرین کو پٹڑی کے اکھڑے ہوئے حصہ تک پہنچنے سے پہلے اپنے بازووں میں اٹھا سکتا ہے، لیکن حقیقت میں، پنک پینتھر جیسی بولی بولنے والے بلور صاحب کے محکمہ کے ملازمین نے سپر مین کو بھی مات دے دی

منڈی بہاءالدین میں محکمہ ریلوے کے حکام نے سرگودھالالہ موسٰی ریلوے ٹریک کا  کچھ حصہ ٹوٹ جانے پر ٹریک جوڑنے کیلیے لکڑی کا تختہ رکھ کرکپڑے کی پٹی باندھ دی ۔۔۔ جی ہاں، یقین کرلیں، کہ ٹریک جوڑنے کیلیئے، لکڑی کا تختہ رکھ کر کپڑے کی پٹی باندھ دی۔

سرگودھالالہ موسٰی ریلوے ٹریک کا محلہ منظورآبادکے قریب تقریباًسات سے آٹھ انچ کاحصہ ٹوٹ کاغائب ہوگیا،جس کی اطلاع ملنے پرمحکمہ ریلوے کے حکام نے روایتی بے حسی کامظاہرہ کرتے ہوئے ٹوٹے ہوئے ٹریک کولوہے کی بجائے لکڑی کاٹکڑارکھ کراس کی مرہم پٹی کردی،اوراپنے سرکاری فرائض کوپوراکرکےچلتے بنے۔۔




دیکھو یار، لوگ چاند پہ پہنچ گئے، اور ہم، ٹریک کو لکڑی سے جوڑ جاڑ کر، لوگوں کو جنت بھیج رہے ہیں۔ ارے میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ، چار کروڑ بوگس ووٹس کے ستون پہ کھڑی حکومت، اس واقعہ کی جسٹیفیکشن بھی دے ہی ڈالے گی۔۔۔ وزارت خزانہ کہتی کہ لوہا چھوڑ کہ لکڑی کا استعمال،بچت کو فروغ دے گا۔۔۔ اورعوامی حکومت کا قومی بچت اسکیم پروگرام سرخرو ہوجائے گا۔ وزارت خزانہ نے تو رولہ ڈال ہی دینا تھا ۔۔ کالعدم تحریک فلاں نے ذمہ داری قبول کرلی، ایسے مزید واقعات کی پیشگی اطلاع ہے اس لیئے، صبح آٹھ سے رات دس بجے تک، لکڑی سروس بند ۔۔۔ اوہ نہیں ۔۔۔ لوہا سروس بند ۔۔۔۔۔ ارے نہیں نہیں، ریلوے سروس بند ۔۔۔۔ اتنی کنفیوژن اس لیئے کہ،  بےحال ریلوے سروس بحال ہی کب ہے؟


تو بھائیوں اور بہنوں، جب تک پنک پنتھر ٹائپ وزرا، ریلوے جیسے محکموں کو ڈوبتی نیہ بنا کر اس کے ناخدا بنے رہیں گے، تب تک ٹرینوں اور پٹڑیوں کی مرہم پٹی، لکڑی رکھ کر کپڑا باندھ کہ ہوتی رہے گی۔ جی ہاں، تب تک عوام، پنسل بن کے پنک پینتھر کے منہ میں لگے شارپنر سے چھیلے جاتے رہیں گے۔۔

No comments:

Post a Comment