Thursday 21 March 2013

عابد علی، اواب علوی اور ٹاڈ


میں اکثر اپنی تقاریر میں یہ مصرعہ ضرور پڑھتا ہوں

ہم کو بخشو یہ سیاست نہیں ہوگی ہم سے

لیکن آج چند لوگوں سے مل کر یہ جانا، کہ سیاست ، اتنی بری بھی نہیں ۔۔۔ شکریہ 
عابد علی امنگ، شکریہ اواب علوی



ایک سیمینار میں مجھے مدعو کیا گیا، بطور ایک میڈیا پرسن اور میرے ہمراہ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے جناب عابد علی امنگ (سابق ممبر قومی اسمبلی) اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اواب علوی پینل میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ دیرینہ دوست اور زبردست ٹرینر عندیل علی بھی پینل میں تھے۔ جب میں کمرے میں داخل ہوا جہاں شرکا اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب یہ سیمینار شروع ہو کر ختم ہو، تو میرے ذہن میں یہ ہی تھا کہ دونوں پارٹی ورکرز کے درمیان وہی روایتی تکرار دیکھنے کو ملے گی ۔۔۔ وہ ہی تو کون میں کون کی جنگ، تم برے، نہیں تم برے کا راگ ۔۔۔ اور جو شام سات سے رات بارہ بجے تک پردہ سیمیں پر ہوتا رہتا ہے ۔۔۔۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برخلاف ۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ ایک سرپرائز مہمان نے آکر تو جیسے ہم پاکستانیوں کی حب الوطنی پہ کئی سوالات اٹھا دیئے۔ اس لیئے عابد بھائی اور اواب پر بات کرنے سے پہلے میں 
امریکی ٹاڈ شیئا کے بارے میں آپ کو بتانا چاہوں گا ۔۔۔



میں یہاں اپنی مرضی سے آیا ہوں، اور اپنی مرضی سے رہ رہا ہوں، نہ ہی مجھے کسی سیکیورٹی کی ضرورت پڑی اور نہ ہی مجھے کسی سے کوئی ڈر ہے۔ میں آیا تو تھا ذہن میں چھ ماہ کا سوچ کہ، مگر سات سال سے پاکستان میں ہوں ۔۔۔ یہ کہنا تھا امریکی ٹاڈ شیئا کا ۔۔۔۔ اور یقین مانیں جب تک ٹاڈ کہتا رہا، ہم شرماتے رہے ۔۔۔

ٹاڈ کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹے کے ساتھ اپنے گھر میں بیٹھے پیزا کھا رہے تھے، کہ اچانک سامنے لگی ٹی وی پہ بریکنگ نیوز آئی، کہ پاکستان میں زلزلہ آگیا ہے ۔۔۔ ٹاڈ نے اسی وقت پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا ۔۔۔

میں نے فٹافٹ پاکستان ایمبیسی فون کیا، اور اپنی خدمات پیش کیں ۔۔ پاکستانی امریکن ڈاکٹرز کی ایک ٹیم پاکستان جارہی تھی، میں ان کے ہمراہ پاکستان آگیا ۔۔ سات مہینے کا سوچ کے آیا تھا ۔۔ آج مجھے پاکستان کی خدمت کرتے ساڑھے سات سال ہوگئے ہیں ۔۔۔۔ میں یہاں اپنی مرضی سے آیا ہوں، اور اپنی مرضی سے رہ رہا ہوں، نہ ہی مجھے کسی سیکیورٹی کی ضرورت پڑی اور نہ ہی مجھے کسی سے کوئی ڈر ہے۔ میں آیا تو تھا ذہن میں چھ ماہ کا سوچ کہ، مگر سات سال سے پاکستان میں ہوں ۔۔۔۔



ٹاڈ کی اتنی مثبت باتیں سن کر، ہم زمین میں گڑتے ہی رہے ۔۔۔ کہاں ایک شخص اتنی دور سے آکر اس ملک کی خدمت کررہا ہے، اور ہم ۔۔۔۔ چھوڑیں اپنا کیا ذکر کرنا ۔۔۔

جاتے جاتے ٹاڈ نے ہالو گٹار پہ، دل دل پاکستان گایا ۔۔ اور ہال میں موجود ہر فرد، 
واقعی جھومتا رہا ۔۔۔۔



لیکن اس سیمینار میں صرف ٹاڈشیئا نے ہی مجھے متاثر نہیں کیا ۔۔۔ اب میں آتا ہوں ان دو سیاسی شخصیات کی جانب، جن سے مل کر سیاست اچھی لگنے لگی ۔۔۔
میں اواب کو صرف ٹوئیٹر کی حد تک جانتا تھا، اس سے زیادہ نہیں ۔۔۔ اپنے خطاب میں اواب نے بتایا کہ ۔۔۔ اب جو بھی بتایا اس کو چھوڑیں ۔۔۔ جو اواب کے بارے میں مجھے دوسروں نے بتایا وہ کافی متاثر کن تھا ۔۔۔ مجھے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اواب ، ڈاکٹر عارف علوی کے صاحبزادہ ہیں ۔۔ اچھا جب مجھے یہ پتہ لگا تو میں نے دل میں سوچا لو بھائی یہاں بھی موروثی سیاست ۔۔ لیکن اگلے ہی لمحہ یہ پتہ لگا کہ اواب کا فی الحال پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں، تو اچھا لگا، اچھا نہیں بہت بہت اچھا لگا ۔۔۔۔ پھر اواب کی یہ بات بھی بہت اچھی لگی کہ امریکہ سے پڑھائی مکمل کرکے پاکستان آنے کا ارادہ کیا ۔۔۔۔ کچھ تو برین ڈرین میں کمی آئی ہوگی ۔۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب ہر کوئی بوریا بستر باندھے یہاں سے نکل لے بھیا کی رٹ لگائے پھر رہا ہے ۔۔۔ اواب کا دندان ساز بن کر پاکستان آنا ۔۔۔ اچھی بات ہے ۔۔ ویسے ڈینٹسٹ کو اردو میں دندان ساز کہنا، عجیب سا لگتا ہے  ۔۔۔۔ 
J

اب ظاہر سی بات ہے کہ اواب نے بھی انتخابات اور ووٹنگ کی بات کی ۔۔ لیکن پڑھے لکھے اور چوڑے چماڑوں میں یہ ہی فرق ہوتا ہے، کوئی اور ہوتا تو شاید ووٹ ووٹ اور صرف ووٹ کی بات کرتا، لیکن اواب نے ایک بہت ضروری بات کی ۔۔۔ جہاں بھی دھاندلی نظر آئے، آپ لوگوں کے پاس بہت بڑا ہتھیار ۔۔ آپ کے موبائل فونز ہیں ۔۔۔ ریکارڈ کریں ۔۔۔ اپ لوڈ کریں ۔۔۔ اپنے نام کے ساتھ نہ کریں ۔۔۔ کل کو لوگ آپ کے پیچھے نہ پڑ جائیں ۔۔ ہاں لیکن اس چیز کو اپنی ذمہ داری سمجھیں، کہ ووٹنگ والے دن، گھر نہ بیٹھیں ۔۔۔ نکلیں اور ووٹ دیں، کیوں ووٹ نہیں دیں گے، تو پھر آنے والی حکومت آپ کے ووٹ سے تو نہیں آئے گی، اور پھر ٹوٹی سڑکوں پھوٹی بتیوں پر آپ کا دھرنا ۔۔۔ بنتا نہیں باس



اور پھر باری آتی ہے ۔۔۔ عابد علی امنگ کی ۔۔۔۔۔



جب وہ آئے تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے ۔۔۔ گھڑی کی جانب دیکھتے ہیں، مسکراتے ہیں ۔۔۔ صاحب فرماتے ہیں ۔۔ کہ ساڑھے آٹھ، اور بھوک کا عالم ۔۔ تو میرے بھائی ۔۔۔ ہر آدمی کیساتھ لگا ہے ایک عدد پیٹ ۔۔۔ تو ووٹ فار پیٹ

اور یہ جملہ سن کر جیسے تمام سوتے ہوئے شرکا میں نئی جان سی پڑ گئی ۔۔۔۔ میں جتنی دیر تک عابد کو سنتا رہا، اس بات کا انتظار کرتا رہا کہ اب کوئی سیاسی تیر کمان سے نکلے گا اور پی ٹی آئی کے خیمہ کی جناب چلایا جائے گا ۔۔ لیکن ایسا ہوا ہرگز نہیں

میں پہلے سے عابد بھائی کو جانتا ہوں، اور یہ بھی کہ جب وہ ممبر قومی اسمبلی تھے، اور اب جب نہیں ہیں، تب بھی استاد تھے، اب بھی استاد ہیں ۔۔۔۔۔ تب بھی دو کمروں کے کرائے کے مکان میں رہتے تھے، اور اب بھی ۔۔۔۔



تقریب کا اختتام ہوا، دونوں صاحبان یعنی اواب اور عابد بھائی نے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا ۔۔۔ اور یہ اس موقع پہ میں نے کہا ۔۔۔ بھائی میڈیا اس سیاسی مفاہمت کا آنکھوں دیکھا حال ضرور لکھے گا

عابد بھائی ہوں، اواب ہوں یا ٹاڈ شیئا ۔۔۔ معاشرے میں اچھے لوگوں کی ابھی کمی نہیں ۔۔۔ ایک جانب ایک امریکی جو اپنا وطن چھوڑ کر ہم ان لوگوں کی مدد کر رہا ہے جو دن رات اپنے وطن کو گالیاں دیتے رہتے ہیں، اور ایک جانب دو ایسی سیاسی شخصیات جن پہ آنے والے وقت میں بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔۔ 
ذمہ داری یہ کہ، اپنی اچھائی کو، برائی کے ہاتھوں مرنے نہ دیں ۔۔۔۔

کیا ہی بات ہو اگر عابد بھائی جیسا تجربہ اس ملک کو مل جائے ۔۔۔ اواب جیسی لگن اور محنت اس ملک کا مقدر بن جائے، اور ٹاڈ شئیا جیسے مخلص دوستوں کا ساتھ رہے ۔۔ جو بغیر کسی ایجنڈے کے اس مٹی کی آبیاری میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں ۔۔ خواب لگتا ہے ناں؟ غریب پرور قیادت، محب وطن جوشیلا خون اور مخلص دوستی ۔۔۔۔ 

جاتے جاتے ان تینوں دوستوں کی آخری بات ۔۔۔

ٹاڈ کہتا ہے ۔۔۔۔ پاکستان میں اچھے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ۔۔۔

اواب نے بتایا، میرے والد نے دو تین سال پہلے کہا کہ گھوڑے کی ریس کو باہر بیٹھ کہ دیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں

اور عابد بھائی نے کہا

ووٹ ڈالیں ۔۔ اس سے پہلے کہ آپ کا ڈالا جائے

Friday 15 March 2013

چل بابو ۔۔۔ سیل لگ گئی ۔۔ عوامی سیل

چل بابو سیل لگادی سیل لگادی ۔۔۔۔ اٹھاؤ اٹھاؤ لوٹ کا مال اٹھاؤ ۔۔۔ سندھ کا خزانہ بڑا پرانہ آؤ جان جاناں اٹھاؤ میٹھا دانہ ۔۔۔۔۔۔ ہو دانے پہ دانہ ۔۔۔



تو اب اور کیا لکھوں بھائی؟ جب سندھ کے وزیر قانون ایاز سومرو نے سندھ اسمبلی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں کہہ دیا کہ فلاں فلاں مراعاتی بل، صوبہ سندھ کے آنربل منسٹرز کو سہولت بخشنے کےلیئے پیش کیئے جارہے ہیں، کیوں کہ انھوں نے پانچ سال سندھ کے عوام کی خدمت کی ۔۔۔ اوئی شاوشے ۔۔ بلکہ کہنا تو یہ چاہیئے ۔۔۔۔۔ کہ دانے پہ دانا ۔۔۔۔ کھولو خزانہ ۔۔۔ کھاتے جاؤ کھانا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عوام رہے ننگے پیر اور آپ پہنیں باٹا ۔۔۔ عوام مانگے روٹی اور آپ کہیں ۔۔۔۔ بائے بائے ۔ ٹا ٹا



روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی چند گھنٹوں کی مہمان سندھ اسمبلی کے اراکین نے جاتے جاتے اپنی تنخواہوں اورمراعات میں ساٹھ فیصد تک اور تاحیات ذاتی مفادات ومراعات کے بل منظورکرلیے۔۔

یہی نہیں ۔۔۔ سائیں وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ رہیں نہ رہیں۔۔ شاہ خرچیاں تاحیات قانونی بنانا چاہتے ہیں۔۔

عوام کے لیے قانون سازی کرنے والی سندھ اسمبلی نے اپنے ممکنہ آخری اجلاس میں بھی سوچا،، تو صرف اپنے بارے میں۔۔۔

اور سوچا بھی کچھ ایسا کے اپنے ووٹروکو سوچ میں ڈال دیا کہ وہ آیندہ انہیں منتخب کریں تو کیو کریں۔۔

سندھ اسمبلی نے الوداعی اجلاس میں وزراء، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، معاونین خصوصی اور  اراکین اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں چالیس سے ساٹھ فیصد اضافے اور تاحیات سرکاری سہولتیں حاصل کرنے کے7 بل منظور کر ڈالے۔۔

اپوزیشن کی مخالفت اور شور شرابے کے باوجود ہوا وہی جو عوامی خدمت گار چاہتے تھے۔۔ یعنی ۔۔۔  عوام کے ٹیکس اور سرکاری خزانے کی بندر کی بانٹ ۔۔۔۔

ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ کی جانب سے مخالفت اور شور شرابا،، نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا،،،
اور بل منظورکرلیے گئے۔



عوام کا درد رکھنے والے 85 سالہ وزیر اعلیٰ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے باز نہ آئے۔۔

ایک اور نجی بل میں وزیراعلیٰ کو تاحیات سہولتیں فراہم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔۔

اسے بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔۔

بل کے مطابق،،، وزیراعلیٰ سندھ کی تنخواہ اور الاؤنس کا 70 فیصد انہیں ملتا رہے گا ۔۔ تاحیات


وزیراعلیٰ سندھ پرائیوٹ سیکریٹری، کلرک، ڈرائیور، خانساماں، مالی، سینیٹری ورکر کے سرکاری خرچ پر مزے لوٹ سکے گے۔۔ تاحیات 

انہیں پولیس سیکیورٹی اورماہانہ دس ہزار روپے  فون اور موبائل الاؤنس بھی دیا جائے گا ۔۔ تاحیات 

یعنی حکومت رہے یا جائے شاہ صاحب کی شاہ خرچیاں جاری رہیں گی ۔۔ تاحیات

تو میرے بھائیوں اور بہنوں ۔۔۔۔۔ جمہوریت بہترین انتقام ہوئی ناں؟ ہم سے اور آپ سے ۔۔۔۔ اچھا انتقام لیا گیا ناں؟ تو آپ اگلے الیکشن میں بھی بھٹو لغاری مزاری پیر جام جتوئی مخدوم ملک نواب آفریدی باچوں اور میروں کو ۔۔۔۔ جمہوریت کیساتھ ہم بستری کی اجازت ۔۔۔ دیں گے ناں؟ ۔۔۔۔ آپ ان کے ہاتھ میں ۔۔۔ دیں گے ناں؟ کیوں کہ ۔۔ چند لوگوں نے قوم کی ۔۔۔ لے لی ہے ۔۔۔۔ قسمت اپنے ۔۔۔ دونوں ہاتھوں میں ۔۔۔۔ وہ بھی ہاتھوں ہاتھ ۔۔۔۔






Wednesday 13 March 2013

میں بس پروین رحمان ۔۔۔۔۔ تھی۔

پتہ ہے تمہارا مسئلہ کیا ہے، تمہارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے ۔۔۔ ایسے بہت کم لوگ ہیں، جو اپنی زندگی ایک مقصد کے تحت گزارتے ہیں ۔۔۔ اور وہ لوگ تو تحسین کے قابل ہیں جو اپنی زندگی دوسروں کے لیئے وقف کردیتے ہیں ۔۔۔ دوسرے ممالک میں ایسے لوگ ہیروز ہوتے ہیں ۔۔۔ اور ہمارے ملک میں ۔۔۔ سر تا پا کفن میں لپٹی ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ پروین رحمان ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

 ہاں ۔۔ میں پروین رحمان ہوں، انیس سو ستاون میں تمہارے ہی مشرقی دھڑے کے شہر ڈھاکہ میں آنکھ کھولنے والی پروین رحمان ۔۔۔
تمہارے ہی مغربی حصہ کے شہر کراچی کی داؤد کالج سے آرکیٹیکچر کے شعبہ میں فارغ التحصیل ہونے والی پروین رحمان ۔۔ تمہیں پتہ ہے، آرکیٹیکچر کیا ہوتا ہے؟ کیوں کیا جاتا ہے؟ تم کیا جانو ۔۔۔۔ شہر اجاڑنے والوں ۔۔ تم کیا جانو ۔۔ کہ میں شہر بنانا چاہتی تھی۔۔۔۔

جامعہ کراچی میں ویژیول اسٹڈیز میں آرکیٹیکچر کی استاد،میں وہ پروین رحمان ہوں جو  انیس سو تراسی سے کراچی کی ایک بستی میں غریبوں کی خدمت کر رہی تھی۔

تمہیں پتہ بھی ہے، کہ جس پروجیکٹ پہ میں نے اپنی زندگی وار دی، وہ ہے کیا، کس کے لیئے ہے؟

اورنگی پائلٹ پراجیکٹ وہ ادارہ ہے جس نے قرضوں کا مستحق امیروں کو نہیں غریبوں کو قرار دیا۔۔

میں اس ادارے کی سربراہ تھی جس نے کراچی کی سب سے بڑی کچی آبادی میں غربت کے خاتمے کی کوشش کی۔۔ شاید یہ ہی میری غلطی تھی ۔۔۔ غربت کا خاتمہ ۔۔۔۔

بنگلادیش سے آنے والے مہاجرین کی اس بستی کا بچہ بچہ اس ادارے کی خدمات کا زندہ گواہ ہے۔

اورنگی ٹاؤن کے لاکھوں عوام کی تین نسلیں اس ادارے کی احسان مند ہیں۔

یہ وہی ادارہ ہے جس نے دس لاکھ کی آبادی میں نکاسیِ آب کی سہولت فراہم کی۔۔

کیا قوم کی خدمت کا یہی انعام ہوتا ہے جو مجھے ملا؟

میں اس قوم کے بچوں کے لیے ماں کی طرح تھی،، کیا بچے اپنی ماں کا قرض یوں اتارا کرتے ہیں؟

کبھی میں سوچتی ہوں کہ میرا قصور کیا تھا ۔۔۔۔ اپنی زندگی کے لگ بھگ تیس سال ایک مقصد کو دے دینا؟ یا پھر غربت کو ختم کرنے کی خاطر اپنی سی کوشش کرنا؟ مجھے تو لگتا ہے، میرے نام میں ہی مسئلہ تھا، ہاں دیکھو ناں، نا ہی میرا نام بابا رحمان ہے جو چار سو ارد گرد میرے لیئے سیکیورٹی کی باڑھیں لگی ہوں، نا ہی میرا نام فضل الرحمان ہے جو میری خبر کو گھنٹوں گھنٹوں اہمیت دی جائے ۔۔۔۔۔ میں بس پروین رحمان ہوں ۔۔ معاف کیجیئے گا، میں بس پروین رحمان ۔۔۔۔۔ تھی۔



Tuesday 12 March 2013

خاموش خوشی ۔۔۔۔



یہ کہانی، میری نہیں، سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پہ ایک دوست کی ہے ۔۔۔۔ ہاں مکمل انصاف تو نہیں، لیکن کوشش کروں گا کہ اپنے الفاظ سے ان جذبات کی کچھ ترجمانی کرسکوں، جن سے ہم رفتہ رفتہ عاری ہوتے جارہے ہیں
وہ ہی دن، وہ ہی کام اور وہ ہی معمول ۔۔۔ میں اپنا روز مرہ کا کام نمٹا رہی تھی، کہ میری نظر اس چھوٹی سی بچی پہ پڑی ۔۔۔ نہ جانے کیوں وہ اپنا منہ بسورے جارہی تھی، تجسس کے مارے میں آگے بڑھی تو پتہ چلی کہ معصوم ننھی سی جان رو رہی ہے، لیکن خاموشی سے ۔۔۔ چھوٹا بچہ، اور خاموشی سے روئے ۔۔۔۔ تعجب ہوا ۔۔۔ بچی کے چہرا لال ہورہا تھا ۔۔۔ اور آنسو ڈب ڈب گر رہے تھے ۔۔ کچھ دیر بعد مجھے سمجھ آیا کہ شاید بچی کھو گئی ہے
اب میں نے بچی کے والدین کی کھوج شروع کی، اور دکان میں موجود ہر فرد سے دریافت کیا، لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔ بالآخر میں تھک ہار کے بیٹھ گئی، ہاں میں تھک گئی تھی، بچی کے والدین کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے، میں تھک گئی تھی، بچی کے چہرے پہ مسکان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے ۔۔۔۔
اسی اثنا میں، کسی نے پیچھے سے میرا سر تھپھپایا ۔۔۔ میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک عورت تھی، جس نے بچی کی جانب اشارہ کیا، مسکرائی اور انگوٹھا کچھ اس طرح اٹھایا جیسے شکریہ کہہ رہی ہو۔۔۔ یہ تھا وہ لمحہ جب مجھے احساس ہوا کہ، ماں اور بیٹی دونوں قوت سماعت سے محروم تھیں ۔۔۔ بلکہ پوری فیملی ہی ۔۔۔۔ باپ بھی اور چھوٹا بیٹا بھی۔۔۔۔
یہ سب، ایک دوسرے سے ایک لفظ کہے بغیر بھی، ایک دوسرے سے کتنے مطمئن تھے ۔۔۔ ایک مکمل خوش باش گھرانہ
کرن خان کے جذبات کیا ہوں گے، یہ ان کے علاوہ کوئی نہیں بتا سکتا ۔۔۔۔ ہاں لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ، آج کے اس معاشرے میں، جہاں ہم سب ایک دوسرے کو زبان کی کاٹ سے مات دینے کی کوشش میں لگے ہیں، اور ایک دوسرے کو مات دے کر، خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ اگر قوت گویائی سے محروم لوگ بھی خوش رہ سکتے ہیں، تو اے خدا ۔۔۔ ہم سب سے زبان چھین لے ۔۔۔ بس خوشی عطا کر 

Monday 4 March 2013

سرکار تمھیں پیسہ دے گی۔۔۔۔۔۔۔



حبیب جالب کافی یاد آئے، اور ان کی نظم بھی ۔۔۔ میں نے اس سے یہ کہا ۔۔۔۔۔ وقت ملے تو پڑھیئے گا ۔۔۔ عباس ٹاؤن واقعہ اور 
حکومتی سستی کا اندازہ ہوجائے گا ۔۔۔۔

محترمہ شرمیلا فاروقی اس تمام تر واقعہ میں مرکزی توجہ کا مرکز بنی رہیں ۔۔۔ اور انھیں شدید ہدف تنقید بنایا گیا ۔۔۔ کیوں کہ رپورٹ یہ ہوا کہ ان کی کسی تقریب کی وجہ سے کراچی کی تمام تر سیکیورٹی موہٹہ پیلس میں موجود تھی۔ اور واقعہ کے بعد 
کوئی بھی حکومتی اعلٰی شخصیت یا سیکیورٹی فورسز کے حکام جائے وقوعہ پہ نہیں پہنچے ۔۔۔

میں بالکل بھی شرمیلا صاحبہ کا ترجمان نہیں ۔۔۔ اور زمانہ طالبعلمی میں بحیثیت مقرر سے لیکر اب صحافت کے پیشہ سے منسلک ہونے کے بعد بحیثیت نیوز اینکر، حکومت ، حکومتی شخصیات ،اور پالیسیوں کو تنقید کا بےلاگ نشانہ بنایا ہے ۔۔ لیکن میرا اب کی بار، ذرا مختلف نظریہ ہے ۔۔۔۔ شاید ہم غلط شخص کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں، اور جن افراد کو وہاں پہنچنا چاہیئے تھا، وہ ابھی تک کیمرے کی آنکھ سے بچے ہوئے ہیں۔۔۔۔


اس کارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ تقریب منگنی کی نہیں بلکہ عشایئہ کی تھی، اور جہاں جہاں یہ رپورٹ کیا گیا کہ منگنی کی تقریب تھی، غلط تھا، سو فیصد غلط ۔۔۔ ہمیں اپنی اس غلطی کو تسلیم کرنا ہوگا ۔۔۔

عشایئہ کی تقریب تھی ۔۔۔۔ شرمیلا فاروقی کی منگنی کے حوالے سے۔۔۔ شرمیلا فاروقی کون ہیں؟ منتخب؟ نہیں ۔۔۔ وہ مشیر ہیں ۔۔۔ یعنی وہ عوامی نمائندہ تو نہیں ہیں ۔۔۔ ہاں لیکن ان کی تقریب میں آئے ۔۔۔ اس راجدھانی کے راجہ صاحب تو منتخب عوامی نمائندے تھے ۔۔۔۔ ایسا تو نہیں تھا کہ ان کے بغیر عشایئہ ادھورا رہ جاتا، ہاں لیکن جو اپنے پیاروں کو چھوڑ کے چلے گئے، ان کی تو زندگیاں ادھوری رہ گیئں ۔۔۔۔۔۔

جہاں تک بات ہے شرمیلا فاروقی کی، تو ٹھیک ہے، ان کی وجہ سے دھماکہ نہیں ہوا، نہ ہی تمام تر سیکیورٹی موہٹہ پیلس پہ دھری ہوئی تھی ۔۔۔ مگر معزز شرمیلا فاروقی صاحبہ ۔۔۔۔ آپ آجاتیں، تو لوگوں میں آپ کی عزت بہت بڑھ جاتی۔۔۔ کہ ان کی منتخب جماعت کی ایک مشیر کو، عوام کا احساس ہے ۔۔ چلیں آپ نہ بھی آتیں ۔۔۔ لیکن سماجی رابطہ کی ویب سائٹ پہ جو آپ نے ٹوئیٹس کیئے ۔۔۔۔ ان کو تھوڑا نرم کرلیتیں ۔۔۔۔۔



جی ہاں یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ آپ کی منگنی نہیں تھی، اور جو بھی رپورٹ ہوا، ٹھیک نہیں ہوا ۔۔
  اب اس واقعہ پر سوشل میڈیا پہ لعن طعن کا ایک طوفان امڈ آیا ۔۔۔۔۔ اور دیکھا جائے تو اس عشایئہ والے واقعہ پرلگ بھگ
دونوں اقسام کی رائے سامنے آئیں، یعنی ایک جانب لوگوں نے آپ کو تنقید کا نشانہ بنایا، تو دوسری جانب آپ کی سپورٹ میں 
 بھی بات کی گئی ۔۔ جو میرے خیال سے ایک حد تک تو ٹھیک تھی ۔۔۔۔ یہ ہیں وہ کچھ آرا، جو ٹوئٹر پہ دی گئیں، موافقت میں بھی اور مخالفت میں بھی ۔۔۔
 




ہاں یہ بات سچ ہے کہ آپ کو خوشی منانے کا پورا حق ہے
 لیکن آپ کی ہی ایک ساتھی، شہلا رضا کے رشتہ دار اس سانحہ میں چل بسے، ان کی خاطر آجاتیں ۔۔۔۔۔ آپ کے اتحادی حیدر
 عباس رضوی کے رشتہ دار بھی اس سانحہ میں دار فانی سے کوچ کرگئے، ان کی خاطر ہی آجاتیں ۔۔۔۔

یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہر علاقہ کا ایس ایچ او الگ ہوتا ہے، لیکن یہ بات تو آپ بھی جانتی ہیں کہ جب وزیر اعظم شہر میں ہوں ۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔ سب لائن حاضر ہوتے ہیں ۔۔۔


-->
اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ دھماکہ آپ کی یا آپ کی تقریب کی غلطی نہیں تھی ۔۔۔ لیکن اتنا سخت رویہ رکھنا، اسے تو آپ غلطی مان لیں ۔۔۔۔ گالیاں دینے والے تو بہت ہیں ۔۔ آگے بھی دیں گے ۔۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ، آپ کو گالیاں دینے والوں کی فکر ہے، یا ان کی جنھیں کھٹمل کہہ کر گالیاں دی جاتی ہیں ۔۔۔۔ ان کی ؟؟؟
یہ نہ دیکھیں کہ لوگ آپ کو برا بھلا کہتے رہے، یہ دیکھیں کہ لوگ آپ سے کچھ توقع کر رہے تھے، لوگ آپ کا انتظار کر رہے تھے ۔۔۔
یا پھر آپ فکر کرتی ہیں ان بین الاقوامی رد عمل کی، جو برصغیر سے لیکر یورپی ممالک تک آئے ۔۔۔۔
بھارت کے جسٹس کاٹجو کہتے ہیں کہ پاکستان جیوراسک پارک بن چکا ہے ۔۔۔ اور ملایئت کی بنا پر بننے والے ملک میں روز روز قتل و غارتگری ہونا، فطری بات ہے ۔۔۔۔ دوسری جانب سری لنکا کے سابق آرمی چیف کہتے ہیں کہ جو حکمت عملی سری لنکا میں دہشتگردی کیخلاف استعمال کی گئی، وہ پاکستان میں بھی کی جاسکتی ہے ۔۔۔
ہم ان دونوں باتوں سے، جتنا مرضی اختلاف کرلیں ۔۔۔۔ کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی ۔۔۔۔



خیر اپنی ہی کشتی میں سوراخ ہو تو پانی کو دوش نہیں دینا چاہیئے ۔۔۔ اگر عباس ٹاؤن سانحہ کے جائے وقوعہ پہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ و دیگر وزرا آجاتے ۔۔۔۔۔ عشایئہ کے بعد ہی آجاتے ۔۔۔۔ مرنے والے واپس تو نہ آتے، ہاں مگر لواحقین کو اتنی ڈھارس تو بندھ جاتی کہ نیرو ۔۔۔ بانسری چھوڑ آیا ہے ۔۔۔۔ یقین مانیں سر آپ کی موجودگی شاید انھیں احساس اپنائیت فراہم 
کرتی۔۔۔ ہاں آپ کے اعلان کردہ پندرہ بیس لاکھ ان کے دلوں میں لگی جدائی کی آگ نہیں بجھا سکتے

جب گھر میں میرے لاش گری
میں رویا ۔۔۔ چیخا ۔۔۔ چلایا
اور ماتم کی آواز بنا
ایک شور اٹھا ۔۔۔۔ چاروں جانب
آواز آئی کانوں میں
تم جشن مناؤ ۔۔۔ رقص کرو
آنسو پوچھو ۔۔۔ خوش ہوجاؤ
اعلان ہوا ہے ٹی وی پر
سرکار تمھیں
پیسہ دے گی۔۔۔۔۔۔۔