Saturday 19 January 2013

عشق زادے!جن کی ذات بھی عشق، فقہ بھی عشق، مسلک بھی عشق

آج نہ ہی محبت کا عالمی دن ہے، نہ ہی ہیر رانجھہ کی برسی ۔۔۔۔۔۔۔ محبت کا بھی کوئی عالمی دن ہوا کرتا ہے کیا؟ بس دل چاہا تو انگلیوں کو جنبش دی اور لفظ خود ہی اپنی منزل کا تعین کرنے لگے۔۔۔ اب ضروری تو نہیں کہ ہر بلاگ ۔۔۔ بے لاگ سیاسی ہو!

آج کی تحریر ان لوگوں کے نام، جو موجودہ مادہ پرست زمانے میں بھی صرف محبت پہ رکھتے ہیں یقین ۔۔۔۔۔۔

جب روحیں باہم ہوں پھر بھی جسموں کی محتاج نہ رہیں ۔۔۔ جب دھڑکنیں ایک ہی لہ، ایک ہی سر اور ایک ہی تال پر راگ الاپیں ۔۔۔۔۔ جب ساحل کی ریت پر قدموں کے نشان دور تک ساتھ چلنے کی گواہی دیں ۔۔۔۔۔ اور ڈوبتا سورج دھنک رنگ کی کرنوں کو سمیٹ کر ہاتھ بنا کہ سلامی پیش کرے ۔۔۔۔ جب نیند کی ڈور سے خواب کی پتنگ اڑائیں اور نظروں کے پیچ سے بوکاٹا ہوجائے، لیکن ادب پھر بھی محبت کے قرینوں میں اولین ترجیح برقرار رہے ۔۔۔۔ جب زخم پہ آنسو کا مرہم رکھیں ۔۔۔۔ جب دونوں ایک ہی تھالی چکھیں ۔۔۔۔ تو پھر دونوں بن جاتے ہیں ۔۔۔۔ عشق زادے

یہ ہی ایک دوجے کا قبلہ، یہ ہی ایک دوجے کا کعبہ، کہ دونوں پر ایک دوجے کا طواف لازم و ملزوم ۔۔۔ کریں تو جنت ۔۔۔ نہ کریں تو تباہی ۔۔۔ بالکل ویسی ہی تباہی جیسی زمین کے مدار سے الگ ہونے پر آئے ۔۔۔۔۔
ان کے بیچ بے پردگی کی لاکھ آزادیاں صحیح ۔۔۔۔ لیکن یہ جڑے ہیں حیا کی کشش ثقل سے ۔۔۔۔۔ اور جس دن یہ کشش ثقل ختم ہوجائے، وہ دن محبت کی قیامت ٹہرا

ان کو ذات کی کوئی سیما نہیں باندھ سکتی ۔۔۔۔۔ نہ ہی کوئی مخصوص زبان ان کے جذبات کی زبان بندی کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔ یہ ایسے لامتناہی سمندر کے تیراک ہیں کہ جب تک ڈوبے نہیں، تب تک ابھر نہیں سکتے۔۔۔ ڈوبنے کا فیصلہ کرلیں تو کوئی کشتی نوح انھیں نہیں بچاسکتی، ابھرنے کا فیصلہ کرلیں تو گہرے سے گہرے نیل کو بھی چیر دیں ۔۔۔ عشق زادے

 یہ ایسے صحرا کے مسافر ہیں کہ ایک پہ بھی دھوپ کڑی ہوجائے تو دوجا اس کے لیئے نخلستان بن جاتا ہے، یہ ایسے مندر کے پجاری ہیں جہاں پوجا تا عمر فرض ہے، یہ ایسے کلیسا کے ماننے والے ہیں کہ جس میں صلیب چڑھنے کا وقت قریب آئے تو دونوں ہی پہل کرنے میں نہ جھجھکیں ۔۔۔۔۔ عشق زادے