Friday 31 May 2013

جانے وہ کون سا دیس ۔۔ جہاں تم چلے گئے

کراچی یوتھ اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا اور تیز بارش تھی، میں گھر سے لڑ بھِڑ کر نکلا تھا، کیونکہ انھوں نے فون پہ کہا دیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے اجلاس ہو کر رہے گا۔ میں رکشہ پہ اے جی سندھ بلڈنگ پہنچا، اور اس سوچ میں بھیگتا ہوا اندر بنے ریڈیو پاکستان کے آڈیٹوریم کی طرف بڑھنے لگا کہ شاید میں ہی پہلے پہنچا ہوں، لیکن وہ وہاں پہلے سے موجود تھے۔ میں بات کر رہا ہوں ۔۔۔ محترم اظفر رضوی بھائی کی ۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ بچوں کا استقبال کرنے کے لیئے بارش میں نہاتا  وہ شخص،  گزشتہ رات خون میں نہلادیا جائے گا ۔۔

 

 

اس قتل کو کیا نام دوں؟ ایک استاد کا قتل؟ ایک دانش ور کا قتل؟ ایک سماجی کارکن کا قتل؟ اور کوئی اسے کوئی بھی نام دے ۔۔ میرے لیئے، اور کراچی کے نوجوانوں کے لیئے یہ ایک ایسے شخص کا قتل ہے، جس نے ان کی آواز کو پرواز بخشی۔ وہ کل کراچی تقریری مقابلہ ہو یا کراچی یوتھ اسمبلی کا قیام، اظفر رضوی کا یہ ہی کہنا تھا کہ اس شہر میں جتنا ٹیلنٹ ہے، اس کو بغیر کسی تفریق کے آگے لانا ہے۔ اور یہ ٹیلنٹ محض اسکول کالجوں میں نہیں، مدارس میں بھی ہے، اس لیئے کراچی میں پہلی بار ایسے تقریری مقابلے ہوئے جہاں اسکول کالج جامعات اور مدارس کے بچے اکھٹے ہوئے اور اپنی اپنی سوچ کے ساتھ آگے بڑھے، آگے بڑھے اس امید کے ساتھ اختلافِ رائے ہی اصل استاد ہے، اور برداشت ہی اصل تجربہ۔


اظفر بھائی کی کراچی کے نوجوانوں کے لیئے کاوش، جس سے میں بھی مستفید ہوا
ڈھاکہ گروپ آف ایجوکیشن کے تحت ہونے والا
پہلا کُل کراچی تقریری مقابلہ 


 

 

تو پھر کسی میں بھی فرق نہ کرنے والے اظفر رضوی کی زندگی اور موت کے فرق کو مٹانے والے کون  ہیں؟ کس نے اختلاف کی آڑ میں اظفر رضوی کو گولیوں سے بھون دیا؟ کس نے کراچی کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے کے طلبا کو یکجا کرنے والے اور ان کی آواز کو پرواز بخشنے پر زندگی تنگ کردی؟ سب سے آسان جواب ۔۔ ۔نامعلوم افراد ۔۔۔۔

ان نامعلوم ملعونوں نے صرف ایک شخص کی آواز نہیں، ان ہزاروں طلبا و طالبات کی آواز چھین لی ۔۔۔ جو قصبہ کے اسکولوں سے لیکر بلدیہ کے مدارس تک میں زیر تعلیم تھے۔ اور ہم تو اس بات پہ نوحہ کناں ہیں کہ ہم سے ایک اثاثہ چھین لیا گیا، لیکن شاید ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ جس نواسے کے سامنے اس کے نانا کو ماردیا جائے، وہ زندگی بھر کِس کرَب میں گُزارے گا؟ میرے ایک دوست نے مجھے سماجی ویب سایئٹ پہ مسج کر کے یہ بتایا کہ اظفر بھائی کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے

میں ابھی آتا ہوں، میرے آنے کے بعد کیک کٹے گا میرے پیارے نواسے کا ۔۔۔۔

پتہ نہیں کب تک ہم، جنت گُم گشتہ کی ان بازیاب کو راحی مُلک عدم بنتا دیکھتے رہیں گے۔ ابھی ایک استاد پروین رحمان کے قبر کی مٹی تازہ ہی تھی کہ اظفر رضوی کو بھی اس دیس بھیج دیا گیا ۔۔۔ جہاں جانے والوں کے لیئے ہم بدنصیب اتنا ہی کہہ سکتے ہیں

 چٹھی نہ کوئی سندیس ۔۔۔ جانے وہ کون سا دیس ۔۔ جہاں تم چلے گئے