Friday 31 January 2014

حوالدار عبدالخالق ۔۔۔۔۔ اور فیس بک

اس تصویر پر نظر پڑی، اور ایک بار پھر احساس ہوا کہ ہم ابھی تک بڑے نہیں ہوئے۔



تنقید سے پہلے میں حوالدار عبدالخالق کے بارے میں کچھ آگاہی دینا ضروری سمجھتا ہوں۔



انیس سو چوون ۔۔ منیلا کے ایشیا گیمز میں پہلی بار پاکستان کی اتھلیٹز حصہ لینے پہنچے۔ ان کھلاڑیوں میں وہ حوالدار بھی تھا، جسے بٹالین میں سزا ملتی تھی، اور انھی سزاوں نے اسے تیز بھاگنے کی تربیت دی۔ سونا پھر ایسے ہی تو کندن نہیں بنتا ۔۔۔۔ اور پھر سو میٹر کی ریس نے ثابت کردیا کہ سونا واقعی بڑا سوہنا ہے ۔۔ حوالدارعبدالخالق نے سو میٹر ریس دس اشارعیہ چھ سیکنڈز میں جیت کر ایشیا کا ریکارڈ بنا ڈالا۔



خالق سے متعلق آپ مزید بھی جان سکتے ہیں
http://en.wikipedia.org/wiki/Abdul_Khaliq_%28athlete%29

لیکن کیا صرف خالق ہی وہ اکلوتا بیٹا تھا جس نے پاک دھرتی ماں کا نام دنیا میں روشن کیا؟
نہیں

پاکستان کا وہ سپوت جس نے پاکستان کے لیئے سب سے پہلے طلائی تمغہ حاصل کیا، وہ تھا دین محمد



دین محمد نے یہ سونے کا تمغہ کُشتی کے مقابلے میں اپنے نام کیا تھا، اور مزید تین نام جنھوں نے منیلا میں سونے کے تمغہ جیتے ۔۔ وہ تھے محمد شریف بٹ، محمد نواز اور مرزا خان۔

اب بات ہوجائے اس فیس بک پکچر پوسٹ کی۔



 سمجھ مجھے یہ نہیں پڑتی کہ بھائی، ہمیں ہر بار تقابل کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ میں مانتا ہوں کہ حوالدار عبدالخالق پہ کوئی کتاب لکھی گئی نہ ہی کوئی فلم نہ ہی کوئی ڈاکیومنٹری بنائی گئی۔ نہ ہی میڈیا نے کوئی توجہ دی۔ فلم؟ ڈاکیومینٹری؟ کیا بات کر رہے ہو یار ۔۔ ہم نے ابھی فلمیں بنانا ابھی شروع ہی کہاں کی ہیں۔ اس پوسٹ میں صرف بھارت اور پاکستان کا مقابلہ نہیں،  کھیلوں کا آپس میں تقابل بھی کیا گیا ہے جو کسی کسی اور کسی بھی صورت مثبت نہیں۔ مطلب اگر آپ فٹبال فین ہیں تو یہ پوسٹ آپ کے لیئے  
 نہیں۔ کیوں؟

اور جو بقیہ چیزیں اس پوسٹ میں لکھیں ہیں ۔۔ ان پہ میں کمنٹ کر نہیں سکتا ۔۔۔ آئی مین ۔۔۔ ایتھیسٹ :D

کھیل تو کھیل ہے۔ چاہے فٹبال ہو یا اتھلیٹکس۔

اور اس سے بھی شاندار انکشاف تو یہ ہے کہ کوئی بھی بھارتی فیس بک اور ٹوئیٹر پہ فارن فٹبال کلب کو
 اوون یا پروموٹ نہیں کرتا۔ اس پہ تو میں بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں ۔۔۔

تو بھیا کھیلو ۔۔ خوب کھیلو ۔۔ کیوں کہ کھیل مثبت مقابلہ اور اچھے معاشرے کا ضامن ہے۔ وہ زبیدہ آپا کہتی ہیں ناں ۔۔ جل کر کباب نہ بنیں ۔۔ کھل کر گلاب بنیں ۔۔

Friday 24 January 2014

عوامی اے ایف آئی سی

کراچی کی ہڑتال
بخار کی شکایت
اسپتال جا نہیں سکتا تھا
قریب ہی موجود ایک لوکل کلینک کا رخ کیا۔ نام اور جگہ نہیں بتائوں گا۔ لیکن جو بیتی وہ ضرور بتاوں گا۔

میں بتاوں گا کہ ہمارے عوام کتنے صابر و شاکر ہیں

ہوادار، روشن، حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق، اورسردی میں ایمان کو گرمادینے والی خوبصورت خطاطی سے مزیئن در و دیوار ۔۔۔ صابر کلینک


عظیم الشان ڈسپنسری

 اب یہ ہی ڈسپنسری بھی ہے، انجکشن بھی یہیں لگ جاتے ہیں ۔۔ تلف بھی یہیں ہوجاتے ہیں۔ اور ڈسپوز بھی ۔۔ کیسا دیا؟




دو بیڈ بھی ہیں بھئی، اور بیڈ کی حالت دیکھ کر ڈی ہائیڈریشن نہ ہوجائے، اس کے لیئے ڈرپ کا بھی خاص اہتمام ہے۔ بس گھبرائیں نہیں، بسم اللہ پڑھیں اور لیٹ جائیں ۔۔ بسم اللہ ضرور پڑھ لیں، ہوسکتا ہے یہ ڈرپ لگانے کے بعد اِنا للہ ہوجائے ۔۔ آزمائش شرط ہے میرا بھائی!


صفائی کا تو خاص اہتمام ہے۔ جدید ترین آلات ۔۔


اور زخم کو صاف کرنے والی روئی سے لیکر مکس ویجیٹبل الٹی تک، سب اس کوڑے دان میں ۔۔




اسٹاف بھی کوئی اعلٰی تھا۔ یہ ہمارا ون مین آرمی ہے۔ جو ہلا
 ہلا کے دوائی بنانے سے لیکر جھاڑو ہاتھ میں لیئے صفائی تک ۔۔ سب خود کرتا ہے ۔




کیا اوقات ہوگی اس عوام کی؟ جو ڈاکٹر کے لکھے اوقاتِ کار پہ پہنچ کے مسیحا کا انتظار کر رہے ہیں۔ سمجھ مجھے یہ نہیں آتا، کہ کیا بیمار پڑنے کا بھی کوئی وقت ہوتا ہے؟ اور اگر وقت درج کر ہی دیا ہے، تو وقت پہ آجاؤ بھئی، لیکن نہیں ۔۔



تو یہ تھا عوام کا عوامی اے ایف آئی سی۔ 

دوا لے کر جب میں گھر واپس آیا تو بریکنگ نیوز چل رہی تھی ۔۔ سابق صدر مشرف کی انجیوگرافی ضروری، پاکستان 
میں کرانے سے انکار ۔۔۔

ویسے سر، آپ بہت ناشکرے ہیں

 آرمی اسپتال میں بہتر سہولیات موجود نہیں

آپ جائیں باہر امریکہ شمریکہ برطانیہ ورطانیہ جا کر علاج کرائیں ۔۔ کیوں؟

اس لیئے کہ سابق صدر ہیں؟
سابق سپہ سالار؟

اور عوام؟ وہ کہیں بھی جا کر علاج کرائے ۔۔ کرائے بھی یا کرائے بغیر سسک سسک کے مر جائے ۔۔۔ سانوں کی؟