Monday 18 February 2013

وہ دیکھ ۔۔۔۔ کھٹمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ دیکھ ۔۔۔۔ کھٹمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کو یاد ہے، جب ایک ڈیڑھ سال پہلے، کوئٹہ سے ایران، براستہ تفتان جانے والی شیعہ زائرین کی بس کو روک کہ، لوگوں کو اتار کہ، اور شناخت کر کے ۔۔ بھون دیا گیا تھا؟ مجھے یاد ہے، چار گھنٹے لگاتار اس بریکنگ پہ بولتے بولتے حلق سوکھ گیا تھا، پھر بریکنگ ختم، نیوز روم سے باہر، حکام کی تھپتھپی ۔۔۔ اور ۔۔۔ بہت اعلٰی بریکنگ کی ۔۔۔۔ کی صدائیں ۔۔۔ واہ واہ ۔۔۔ مجھے اینکرنگ میں مستقبل تابناک نظر آنے لگا ۔۔ لیکن جب میں گھر گیا، اور ٹی وی لگا کر اس ایشو کو تھوڑا بہت ایک ناظر کے طور پہ دیکھا تو ۔۔۔ اپنے آپ پہ شرم آئی ۔۔۔۔۔۔ شرم کیوں آئی ۔۔ یہ آخر میں بتاتا ہوں۔۔

اور آپ کو یہاں ہم بریکنگ نیوز دے رہے ہیں، چار دن سے زائد جاری رہنے والا دھرنا ختم ہوگیا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یاد ہے یہ بریکنگ، جو ہر خاص و عام چینل پہ علمدار روڈ دھرنا ختم ہوتے ہی چلنی شروع ہوگئی تھی، اور سوشل میڈیا پہ تمام افراد ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے، اور یوں لگ رہا تھا کہ فتح پالی گئی ہے ۔۔۔لیکن کیسی فتح؟ ہزار کلو گرام کے برودی مواد نے اس فتح کا منہ کچھ اس طرح چڑایا کہ پھر سے وہ ہی دھرنا، پھر سے وہ ہی لاشیں، پھر سے وہ ہی ۔۔ میں کون تو کون ۔۔۔ کی صدا

اب میں بڑے بڑے تجزیہ کاروں کی طرح، اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ فوج کے آنے سب ٹھیک ہوگا یا نیہں، گورنر راج کے رہنے سے سب ٹھیک ہوگا کہ نہیں، یا پھر عوام کے منتخب نمائندوں کو دوبارہ باگ ڈور پکڑانے سے سب ٹھیک رہے گا یا نہیں ۔۔ ویسے جو افراد اس چیز کا رونا رو رہے ہیں، کہ گورنر راج ہٹاو ۔۔۔ یہ جمہوریت پہ شب خون ہے ۔۔ ان سے ایک سوال ۔۔۔۔ آپ کو عوام نے نیند پوری کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے کیا؟ اٹھ جائیں، آپ کے ہی صوبہ کے لوگ، موت کی نیند سونے پہ مجبور ہیں

خیر، کل رات، ٹوئٹر پہ کافی گرما گرم بحث رہی، کچھ لوگوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا آپ صرف بریکنگ نیوز ہی کرتے رہیں گے؟ اس مسئلہ کا کوئی حل ہے بھی یا نہیں؟ میرے لیئے بہت آسان تھا یہ کہنا کہ بھائی میں پروگرام اینکر نہیں، نیوز اینکر ہوں ۔۔ اور میں صرف خبریں دیتا ہوں، اپنی آرا نہیں۔۔۔۔ لیکن میں یہ تو نہیں بھول سکتا کہ میں ایک نیوز اینکر بعد میں، اور  اس معاشرے کا حصہ پہلے ہوں ۔۔ وہ معاشرہ، جو عدم برداشت کی بہترین مثال ہے ۔۔ شاید میری بات، ابتدا میں بری لگے ۔۔ لیکن یہ ہی بات 
ہے، یہ ہی سچ ہے ،،، کہ ہم خود برے ہیں ۔۔




تبدیلی اندر سے آتی ہے ناں، سوچ سے؟ تو پھر بدلیں سوچ کو، اور خدا کے واسطہ، اہل تشیع افراد کو کھٹمل کہنا چھوڑ دیں ۔۔۔اس بات کو مانیں کہ قتل کا محرک نفرت ہی بنتا ہے، اور نفرت کی آگ اس وقت بھڑکتی ہے جب آپ کسی کو اپنے سے حقیر جانیں، اور پھر حقارت میں اس پہ جملے کسیں ۔۔۔۔ خدارا اس بات کا فیصلہ خدا پہ چھوڑ دیں کہ کون کافر ہے اور کون نہیں۔۔۔۔۔ انسان ہیں یار ۔۔ سب انسان ہیں ۔۔۔ جب تک میرا ذہن نہیں بدلے گا، تب تک آپ جتنے وزرا اعلٰی بدل لیں، جتنے گورنر راج لگالیں، جتنے دھرنے دے لیں، یہ دھماکے ختم نہیں ہوں گے ۔۔ یہ نفرتیں اور کدورتیں بڑھتی رہیں گی ۔۔۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔۔۔۔۔ کہ یہ ہی تو نفرتوں کا آغاز بنتی ہے، اور انجام ۔۔۔ ہزار 
کلوگرام بارود کا دھماکہ ۔۔۔۔ یہ کھٹمل کہہ کر تضحیک کرنا، ہزار کلو گرام بارود سے زیادہ خطرناک ہے



اور اب وہ ابتدائی بات ۔۔ کہ مجھے شرم کیوں آئی ۔۔۔ شکر ہے کہ آگئی ۔۔ ورنہ آجکل ہماری شرم بھی کے ای ایس سی  اور واپڈا سپانسرڈ شرم ہوگئی ہے ۔۔ بجلی کی طرح آتی ہے، پھر گھنٹوں غائب رہتی ہے۔۔۔
شرم اس لیئے آئی کہ ہم سیاستدانوں کو تو لاشوں پہ سیاست کرنے پہ خوب لعن طعن کرتے ہیں، مگر ۔۔۔ لاشوں کی بریکنگ کرتے وقت، ذرا بھی احساس نہیں رکھتے ۔۔ کہ یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟ اور پھر اس بات کو ذہنی ناپختگی سے پھر جوڑوں گا، کہ جو منہ میں آتا ہے ہم بولتے چلے جاتے ہیں، کہ ناظرین آپ دیکھ سکتے ہیں، یہاں لاشیں ہی لاشیں ہیں، جسمانی اعضا بکھرے پڑے ہیں، اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔۔

مجھے بطور صحافی، نیوز اینکر، اور ہمیں بطور ذمہ دار شہری ہونے کہ، اپنی سوچ کا پختہ کرنا ہے ۔۔۔۔ کم از کم یہ تو ضرور کرنا ہے، کہ آنے والی نسل، یعنی گھر میں موجود بچوں کو یہ نہیں سکھانا کہ اہل  
تشیع افراد کو کھٹمل کہتے ہیں ۔۔ یقین مانیں ۔۔ بہت فرق پڑے گا ۔۔ بہت ۔۔۔۔۔

کم از کم اتنا تو فرق پڑنا شروع ہوا ہے کہ ہم نے اظہار یکجہتی کا آغاز کیا ۔۔۔ 




3 comments: