Monday 25 February 2013

تعلیم کی راہ میں آہنی دیوار ۔۔ ووٹ کا و لگا کہ زیر تعلیم بنے وزیر تعلیم

-->
تو جب بھی میں کسی کانفرنس میں جاتا ہوں، لوگ تاک تاک کے مجھ پہ یہ سوال پھینکتے ہیں، کہ آپ کے چینل پہ یہ پاکستان مخالف نعرہ چلتا ہے
پڑھنے لکھنے کے سوا
پاکستان کا مطلب کیا ؟
بس پھر کچھ اور محب وطن مل کر ایسا لعن طعن کرتے ہیں کہ بس ۔۔۔ آپ اس ملک کو فلاں ڈھمکاں کے کہنے پہ چلا رہے ہیں، آپ نے پاکستان کے مطلب کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔۔ اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔ بھائی نہ تو میں نے یہ نعرہ بنایا ہے نہ ہی مجھے پاکستان کے مطلب سے کچھ لینا دینا ہے ۔۔ مجھے لینا دینا ہے، تو اس بچے سے، جو تھر کے ایک ایسے گاؤں میں رہتا ہے، جہاں نہ ہی بلب کی روشنی پہنچی ہے نہ ہی علم کی روشنی، جہاں کے باسی، اسی نہر سے پانی پی رہے ہیں، جہاں ان کے مویشی پانی پیتے بھی ہیں، اور کرتے بھی!
کراہیت ہوئی؟
نہیں، اچھا تو اب ہوگی، اسی علاقے سے وزیر تعلیم سندھ منتخب نمائندے ہیں۔۔۔
حیرت ہوئی؟
نہیں؟ اوہ اچھا ۔۔۔ وہ اس لیئے کیوں کہ آپ نے یا میں نے ایسا کبھی محسوس کیا ہی نہیں ۔۔۔ ہم نے اچھے گھرانوں میں آنکھ کھولی، اچھے اچھے ماں باپ ملے، اچھی اچھی کمپنیوں کا اچھا اچھا دودھ پی کر اچھی کمپنیوں کمپنیوں کے پیمپرز گندے کیئے ۔۔۔ پھر اچھے اچھے اسکولوں میں پھیجے گئے، پھر اچھے کالج اور پھر اچھی جامعات میں تعلیم حاصل کر کے اچھی اچھی نوکریوں پہ لگ گئے ۔۔۔ اور اچھی اچھی نوکریوں پہ لگ کہ ہم نے یہ کہا میں حیدرآباد میں یونیورسٹی نہیں بننے دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔
تو نہ بنائیں یار، ویسے بھی آپ نے پانچ سال میں کیا بنا کے دیا ہے؟ بس ہمیں ۔۔۔ بنا کے رکھ دیا ہے


یہ تھے وہ الفاظ جو انھوں نے کہے
Very senior people know, how the conspiracies against Sind University were initiated in different timings, they wanted to destroy Sind University, they wanted to defame Sind University. They wanted to establish their own University in some specific area of Hyderabad City and I became an iron wall against them.
بعد ازاں گزشتہ روز انھوں نے یہ بیان بھی دیا کہ میرے بیان کو توڑ مروڑ کے پیش کیا گیا، میں نے اسی رات ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری کو فون کر کے کہا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا ۔۔ میں نے تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کو ہدف تنقید بنایا تھا کیوں کہ انھوں نے ہمیں اتنی اسکالرشپس نہیں دیں جتنی دینی چاہیئے تھیں ۔۔



سر پتہ ہے مسئلہ کیا ہے، اب ریڈیو کا زمانہ تو گیا، ٹی وی کا دور ہے، تو ٹی وی بھی، آپ بھی اور آپ کا بیان بھی ۔۔۔۔ یعنی
They wanted to establish their own University in some specific area of Hyderabad City and I became an iron wall against them.

لیکن سر مجھے آپ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ۔۔۔ میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ جن کے مرحوم دادا پیر الہٰی بخش نے جامعہ سندھ کا بل سندھ اسمبلی میں پاکستان بننے سے پہلے یعنی اپریل ۱۹۴۷ میں پیش کیا، ان کے پوتے حیدرآباد میں جامعہ بننے کی راہ میں آہنی دیوار کیوں ۔۔۔ جی جناب مجھے آپ سے کوئی گلہ ن ہیں ۔۔ کیوں کہ جب من حیث القوم کا یہ حشر ہو کہ اسے پڑھنے لکنے کے سوا، پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ صیہونی و طاغوتی لگنے لگے ۔۔۔ تو پھر الامآن الحفیظ ۔۔۔۔۔
حیدرآباد میں جامعہ بنے گی یا نہیں، یہ تو پتہ نہیں ۔۔۔ ہاں مجھے یہ پتہ ہے کہ اس ملک میں تعلیم کی گرتی قدر و قیمت ۔۔۔ اس ملک کو واقعی پتھر کے دور میں دھکیل دے گی، آرمیٹج صاحب آپ کی بمباری کی ضرورت نہیں



ابھی بلٹن کرتے وقت یہ خبر میری نظروں سے گزری ۔۔۔
برطانیہ سے مائیکروبیالوجی میں ڈگری لے کر وطن کی خدمت کاجذبہ لے کروطن واپس آنے والا قبائلی نوجوان چار سال تک نوکری نہ ملنے پر چنے بیچنے پر مجبور ہوگیا۔۔۔۔




گوجرانوالہ کی سڑکوں پر چنے بیچنے والےاس اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اسد علی شاہ کا تعلق  خیبر پختونخوا سے ہے۔۔اس نے حصول علم میں سخت محنت کے بعد2007 میں  نوٹیگم یونیورسٹی انگلینڈ سےاسکالرشپ حاصل کی اور 2008 میں  میڈیکل مائیکروبیالوجی میں ڈگری لے کر وطن واپس آگیا۔۔۔اسد کاکہناہے کہ مسلسل چار سال سے نوکری کی تلاش میں وہ دربدرماراماراپھرا مگراسے معمولی ملازمت بھی نہ مل سکی۔۔۔  اسی لیے اپنا شہر چھوڑ کرگوجرانوالہ آگیا اور اپنی ڈگری میں چنے ڈال کر لوگوں کوکھلارہاہوں۔۔۔کیونکہ ملک میں جعلی ڈگری والے پارلیمنٹ میں ہیں اور اصلی ڈگری والے چنے بیچنے پر مجبور۔۔۔





یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ ہونہار طالبعلم قبائلی علاقوں سے ہے، جی ہاں وہ ہی قبائلی علاقہ جو آجکل طالبعلم کے بجائے طالبان کے لیئے زیادہ جانا جاتا ہے، اور شکر ادا کریں کہ اس نوجوان نے چنے بیچنے پہ اکتفا کیا، یہ بھی طالبان بن جاتا تو میں اور آپ کیا کرلیتے بھائی؟





جی ہاں، پڑھئیے اور سر دھنیئے ۔۔۔ کہ پڑھ لکھ کر یہاں لوگ چنے بیچتے ہیں ۔۔۔ یہاں کھیل کے چیمپیئن ٹرافیاں بیچ کر فرنچ فرائز کا مشین خرید کر اپنی قابلیت کو تیل میں کھولتا دیکھتے ہیں ۔۔۔

تو پھر میری بلا سے پاکستان کا کوئی بھی مطلب ہو ۔۔۔


پاکستان کا مطلب کیا، کھا پی اور مال بنا

پاکستان کا مطلب کیا، لوٹ کھسوٹ سے نام کما

پاکستان کا مطلب کیا، ڈنڈا گولی مارشل لاء

ہاں مجھے مطلب سے کوئی غرض نہیں، کہ جب مائیکروبائیولجسٹ ریڑھی پہ چنے بیچنے لگیں تو وہ باگ ڈور ان ہی کے ہاتھ میں ہوگی جن کے اصطبل میں عربی گھوڑے امریکی چنے کھاتے ہوں ۔۔۔ جب اسکواش کے چیمپیئن ٹرافیاں بیچ کر فرنچ فرائز بیچنے لگیں تو وہ ہی لوگ اس ملک کی بیوروکریسی کا حصہ بنیں گے جو پھل بھی دوا سے صاف کر کے کھاتے ہوں اور بچے جننے فرانس اور سوئٹزرلینڈ جاتے ہوں ۔۔۔ میں تو مشورہ دوں گا تنور میں روٹی لگانے والے اس لڑکے کو جس نے پنجاب بورڈ میں پوزیشن حاصل کی کہ بھائی، روٹیاں لگاتے رہو، کیوں کہ کل کو تمہاری ڈگری بھی تنور کی آگ بھڑکانے کے کام آئے گی، اور کچرا چننے والے اس بچے کو بھی جس نے خیبر پختونخوا بورڈ میں امتیازی نمبر لیئے ۔۔۔ بھائی کچرا چنتے رہو ۔۔۔ کل کو تمھاری ڈگری بھی تو کچرا کہلائے گی ۔۔ ہاں یہاں لوگ جامعات بننے کی راہ میں آہنی دیوار ہیں ۔۔۔ آہنی دیوار ۔۔۔۔ اور آہنی دیوار کیا ہوتی ہے، یہ بھی صرف انھیں ہی پتہ رہے گا، کیوں کہ نہ جامعات ہوں گی، نہ تعلیم ہوگی، نہ آہنی دیوار کا مطلب پتہ لگے گا ۔۔۔ ہاں اگر پھر بھی ہمت ہو ۔۔ تو یہ اتنا کرجانا کہ

اونچے اونچے ناموں کی تختیاں جلادینا
ظلم کرنے والوں کی وردیاں جلا دینا
دربدر بھٹکنا کیا دفتروں کے جنگل میں؟
بیلچے اٹھا لینا، ڈگریاں جلا دینا

Friday 22 February 2013

میں تکفیری ہوں؟؟

میرا ایک ہی بیٹا تھا ۔۔۔۔ مالک نے دیا ۔۔۔۔۔۔ اس کا انعام تھا ۔۔۔۔ اس نے لے لیا ۔۔۔۔

آپ سوچ بھی سکتے ہیں کہ ایک باپ، اپنے ہونہار بیٹے کی موت پہ، یہ الفاظ، کس دل سے ادا کرتا ہے؟ رسم ابراہیمی ادا کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے، نہیں ہے!

ڈاکٹر علی حیدر کے والد، ڈاکٹر وحید ظفر کی رندھی ہوئی آواز اور بھیگی ہوئی آنکھیں، اور اس پہ صبر و شکر کا یہ جملہ ۔۔۔ یا خدا، میری قربانی قبول کر ۔۔۔۔


میں تکفیری ہوں یا تفریقی یہ تو نہیں پتہ، ہاں لیکن میرے تکفیری بننے سے جو تفریق پیدا ہوئی اس سے دنیا بھر کے لیئے تفریح کا ساماں ضرور پیدا ہوا ۔۔ اور دنیا بھر کی ایجنسیوں نے، جنرل ڈائر سے لیکر جنرل جان ایلن تک مسلمانوں کو خوب تفریح کا ساماں بنایا ۔۔۔۔
ویسے تفریح کا سامان تو ہم نے خود بھی ڈھونڈھ ہی لیا ہے، ریمنڈ ڈیوس سے لیکر شاہ زیب کیس تک، ہم شمشیر و ثنا اول پہ عمل کرتے ہوئے کراچی تا خیبر احتجاج کرتے ہیں، اور پھر دیت و پرکشش عہدہ طاؤس و رباب آخر ثابت ہوتا ہے ۔۔۔

تو کیا اب ہم ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کے لیئے ریلی نکال رہے ہیں؟ کوئی دھرنا؟ کوئی احتجاج؟ چھوڑیں یار ۔۔۔۔ آپ تو فیس بک پہ کوئی ایونٹ اور ٹوئٹر پہ ٹرینڈ بھی نہ بناسکے ۔۔۔ اور کیا ہمیں کس حیثیت سے احتجاج کرنا چاہیئے؟ کہاں کرنا چاہیئے؟ لواحقین سے پوچھ کہ کرنا چاہیئے؟





میری باتوں کا برا نہ مانیئے گا ۔۔۔ میں ایک سنی ہوں، اور شیعہ ڈاکٹر علی کے قتل پر میرا دل ویسے ہی روتا ہے، جیسے کراچی کی سڑکوں پہ قتل کیئے جانے والے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کے قتل پہ روتا ہے، جیسے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کو ہٹلری انداز میں جلا کر ماردینے پہ روتا ہے ۔۔۔۔

ارے ۔۔۔ میں تو ایک سنی ہوں ۔۔ تو پھر میں ڈاکٹر علی حیدر کے لیئے کیوں لکھ رہا ہوں؟ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ ان کے قاتل پکڑے جائیں گے؟ پتہ نہیں ۔۔۔۔ ہزارہ برادری کا قتل عام بند ہوگا؟ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ کیا میں تکفیری ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

مجھے نہیں پتہ کہ اس لفظ کا مطلب بھی کیا ہے، نہ ہی میں جاننا چاہوں گا، میں اتنا جانتا ہوں کہ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں، میں جن کیساتھ بیڈمنٹن کھیلتا ہوں ان میں بھی کئی شیعہ ہیں، میں نے اس چینل میں کام کرنے سے پہلے جس چینل میں کام کیا وہاں میرے بہت سے دوست شیعہ تھے، اور جہاں اب کام کررہا ہوں، وہاں بھی بہت سے شیعہ ہیں ۔۔۔ میں ان کے کام کرتا ہوں، ہنسی مذاق بھی، میں ان کے ساتھ کھانا کھاتا ہوں، اپنی روٹی انھیں دیتا ہوں، اور ان کا لایا ہوا چاول کھاتا ہوں ۔۔۔۔ رزق تو خدا کا ہے، اور خدا شیعہ سنی ہندو مسلمان دیکھ کر تو رزق نہیں دیتا!

تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ جب میں ایک سنی ہوتے ہوئے اپنے شیعہ بھائیوں کیساتھ، اور وہ شیعہ ہوتے ہوئے میرے ساتھ کوئی بھید بھاؤ نہیں کرتے، تو پھر کون ہیں یہ لوگ، جنھیں کہ سیاہ دلوں میں نفرتوں اور کدورتوں کے اتنے کرخت و کھردرے کانٹے ہیں کہ یہ صرف گولیاں نہیں مارتے، چہرے پہ گولیاں مارتے ہیں ۔۔۔

جہاں تک بات ہے ڈاکٹر علی اور ان کے نو عمر بیٹے کی، تو ہم کمزور لوگ سوائے افسوس کے علاوہ اور کر بھی کیا کرسکتے ہیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کا خاندان چار پشتوں سے انسانیت کی خدمت پہ مامور ہے، ہاں وہ ہی انسانیت جو ایک انسان کے قتل ہونے پہ مکمل قتل ہوجاتی ہے ۔۔۔۔ ڈاکٹر صاحب کے والد اور چچا بھی ڈاکٹر ہیں، اور ان کے دادا، قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور ۱۹۴۷ میں بننے والی باؤنڈری کمیشن کے رکن بھی رہے ۔۔۔۔۔۔

تو ہاں ۔۔۔ میں تو ایک سنی ہوں ۔۔ تو پھر میں ڈاکٹر علی حیدر کے لیئے کیوں لکھ رہا ہوں؟ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔ ان کے قاتل پکڑے جائیں گے؟ پتہ نہیں ۔۔۔۔ ہزارہ برادری کا قتل عام بند ہوگا؟ پتہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ کیا میں تکفیری ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟ کیا ڈاکٹر ظفر جیسے کئی اور باپ، اپنے ڈاکٹر بیٹے جیسے ہونہار سپوتوں کا رونا اسی طرح روتے رہیں گے؟ اور مرتضٰی؟؟؟؟ اس کا قصور؟

نہیں یہ اچھا ہی ہوا، کہ مرتضٰی بھی چلا گیا، کیوں کہ جو باپ اپنے بیٹے کو دولہا بنا دیکھے، اور وہ ہی باپ اسی دولہا بیٹے کے جنازے کو کاندھا بھی دے ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ظفر میں تو بطور باپ اتنی ہمت تھی، لیکن کل کو بڑے ہونے والا مرتضٰی جب دولہا بنتا، کتنی چاہت سے باپ ڈاکٹر علی اس کی شیروانی بار بار ٹھیک کرتا ۔۔۔ اور پھر کسی نام نہاد مسلمان کے دل میں دنیا سے کافروں کے مٹانے کا عزم جاگتا، مرتضٰی کو موت کی نیند سلادیتا، ہاں شاید ڈاکٹر علی میں ڈاکٹر ظفر جیسا صبر نہ ہوتا ۔۔۔ ہاں شاید ۔۔۔۔۔



Monday 18 February 2013

رحمان بابا ۔۔۔۔ اور کچھ؟

فضا میں آلودگی بڑھ جائے، تو میں سانس لینا چھوڑ دوں؟ پانی میں گندگی بڑھ  جائے، تو میں پیاسا مروں؟َ دھماکے ہونے لگیں تو مسجد جانا چھوڑ دوں؟ حملہ ہوتے رہیں تو امام بارگاہ جانا ترک کردوں؟ ذاتی اقدام کا تو پتہ نہیں، ہاں لیکن حکومتی اقدامات سے تو ایسا لگنے لگا ہے ۔۔۔۔۔ ہائے مجھے سوشل میڈیا پہ چلنے والی یہ تصویر یاد آگئی ۔۔۔۔


خیر یہ تو مذاق کی بات ہے، اس سے اگر کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت ۔۔ لیکن بھائی، ایسا کام ہی کیوں کیا جائے، جس سے مذاق بنے!
 رات تین بجے یہ خبر آئی کہ وزیر داخلہ رحمان ملک نے تہران سے یہ حکم صادر کیا ہے، کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے علاقے کو ریڈ زون قرار دیا جائیگا، اور برادری کو سیکیورٹی فراہم کرنے کیلیئے اضافی پولیس اہلکار تعینات کیئے جایئں گے ۔۔۔ سر جی ۔۔۔ اور کچھ؟
آپ نے جو بھی اقدامات کیئے، میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا، سر کہاں میں، کہاں آپ ۔۔۔ ہاں لیکن یہ تازہ ترین آئٹم جو مارکیٹ میں آیا ہے، نہایت ہی نرالا ہے ۔۔۔


تو شاید فصیل زدہ ہزارہ کمیونٹی کا علاقہ کچھ ایسا لگا ۔۔۔ اگر ریڈ زون بن گیا تو ۔۔۔۔
آپ بالکل ہزارہ کمیونٹی کے علاقے کو ریڈ زون  بنائیں، لیکن اتنا بتا دیں، کہ ہزارہ ٹاؤن کے باہر قائم امام بارگاہ امام باقر کا کیا ہوگا؟


اور یہ بھی بتادیں، کہ جو اہل تشیع افراد، اس ریڈ زون سے باہر رہتے ہیں، ان کے لیئے آپ کون سا زون بنائیں گے؟ ہرا نیلا پیلا؟ اچھا تو جو شیعہ برادر اپنے دفاتر جائیں گے، ان میں سے ہر ایک کے ساتھ سیکیورٹی گارڈ ہوگا؟ یا آپ تمام دفاتر کی ایک ایک شاخ ریڈ زون میں کھلوانے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اور جو شیعہ بہن بھائی، اپنی جامعات، اور جو چھوٹے بچے کالجز یا اسکول جائیں گے، انھیں بھی ایسے ہی
لوازمات دیئے جائیں گے؟


آپ انھیں یہ سب نہ دیں، بس احساس تحفظ دے دیں ۔۔۔۔۔ کیوں کہ سونے
کے پنجرے میں پرندہ، قیدی ہی کہلاتا ہے! پالیسی لائیں سر پالیسی ۔۔۔


وہ دیکھ ۔۔۔۔ کھٹمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وہ دیکھ ۔۔۔۔ کھٹمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کو یاد ہے، جب ایک ڈیڑھ سال پہلے، کوئٹہ سے ایران، براستہ تفتان جانے والی شیعہ زائرین کی بس کو روک کہ، لوگوں کو اتار کہ، اور شناخت کر کے ۔۔ بھون دیا گیا تھا؟ مجھے یاد ہے، چار گھنٹے لگاتار اس بریکنگ پہ بولتے بولتے حلق سوکھ گیا تھا، پھر بریکنگ ختم، نیوز روم سے باہر، حکام کی تھپتھپی ۔۔۔ اور ۔۔۔ بہت اعلٰی بریکنگ کی ۔۔۔۔ کی صدائیں ۔۔۔ واہ واہ ۔۔۔ مجھے اینکرنگ میں مستقبل تابناک نظر آنے لگا ۔۔ لیکن جب میں گھر گیا، اور ٹی وی لگا کر اس ایشو کو تھوڑا بہت ایک ناظر کے طور پہ دیکھا تو ۔۔۔ اپنے آپ پہ شرم آئی ۔۔۔۔۔۔ شرم کیوں آئی ۔۔ یہ آخر میں بتاتا ہوں۔۔

اور آپ کو یہاں ہم بریکنگ نیوز دے رہے ہیں، چار دن سے زائد جاری رہنے والا دھرنا ختم ہوگیا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یاد ہے یہ بریکنگ، جو ہر خاص و عام چینل پہ علمدار روڈ دھرنا ختم ہوتے ہی چلنی شروع ہوگئی تھی، اور سوشل میڈیا پہ تمام افراد ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے، اور یوں لگ رہا تھا کہ فتح پالی گئی ہے ۔۔۔لیکن کیسی فتح؟ ہزار کلو گرام کے برودی مواد نے اس فتح کا منہ کچھ اس طرح چڑایا کہ پھر سے وہ ہی دھرنا، پھر سے وہ ہی لاشیں، پھر سے وہ ہی ۔۔ میں کون تو کون ۔۔۔ کی صدا

اب میں بڑے بڑے تجزیہ کاروں کی طرح، اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ فوج کے آنے سب ٹھیک ہوگا یا نیہں، گورنر راج کے رہنے سے سب ٹھیک ہوگا کہ نہیں، یا پھر عوام کے منتخب نمائندوں کو دوبارہ باگ ڈور پکڑانے سے سب ٹھیک رہے گا یا نہیں ۔۔ ویسے جو افراد اس چیز کا رونا رو رہے ہیں، کہ گورنر راج ہٹاو ۔۔۔ یہ جمہوریت پہ شب خون ہے ۔۔ ان سے ایک سوال ۔۔۔۔ آپ کو عوام نے نیند پوری کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے کیا؟ اٹھ جائیں، آپ کے ہی صوبہ کے لوگ، موت کی نیند سونے پہ مجبور ہیں

خیر، کل رات، ٹوئٹر پہ کافی گرما گرم بحث رہی، کچھ لوگوں نے یہ بھی پوچھا کہ کیا آپ صرف بریکنگ نیوز ہی کرتے رہیں گے؟ اس مسئلہ کا کوئی حل ہے بھی یا نہیں؟ میرے لیئے بہت آسان تھا یہ کہنا کہ بھائی میں پروگرام اینکر نہیں، نیوز اینکر ہوں ۔۔ اور میں صرف خبریں دیتا ہوں، اپنی آرا نہیں۔۔۔۔ لیکن میں یہ تو نہیں بھول سکتا کہ میں ایک نیوز اینکر بعد میں، اور  اس معاشرے کا حصہ پہلے ہوں ۔۔ وہ معاشرہ، جو عدم برداشت کی بہترین مثال ہے ۔۔ شاید میری بات، ابتدا میں بری لگے ۔۔ لیکن یہ ہی بات 
ہے، یہ ہی سچ ہے ،،، کہ ہم خود برے ہیں ۔۔




تبدیلی اندر سے آتی ہے ناں، سوچ سے؟ تو پھر بدلیں سوچ کو، اور خدا کے واسطہ، اہل تشیع افراد کو کھٹمل کہنا چھوڑ دیں ۔۔۔اس بات کو مانیں کہ قتل کا محرک نفرت ہی بنتا ہے، اور نفرت کی آگ اس وقت بھڑکتی ہے جب آپ کسی کو اپنے سے حقیر جانیں، اور پھر حقارت میں اس پہ جملے کسیں ۔۔۔۔ خدارا اس بات کا فیصلہ خدا پہ چھوڑ دیں کہ کون کافر ہے اور کون نہیں۔۔۔۔۔ انسان ہیں یار ۔۔ سب انسان ہیں ۔۔۔ جب تک میرا ذہن نہیں بدلے گا، تب تک آپ جتنے وزرا اعلٰی بدل لیں، جتنے گورنر راج لگالیں، جتنے دھرنے دے لیں، یہ دھماکے ختم نہیں ہوں گے ۔۔ یہ نفرتیں اور کدورتیں بڑھتی رہیں گی ۔۔۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔۔۔۔۔ کہ یہ ہی تو نفرتوں کا آغاز بنتی ہے، اور انجام ۔۔۔ ہزار 
کلوگرام بارود کا دھماکہ ۔۔۔۔ یہ کھٹمل کہہ کر تضحیک کرنا، ہزار کلو گرام بارود سے زیادہ خطرناک ہے



اور اب وہ ابتدائی بات ۔۔ کہ مجھے شرم کیوں آئی ۔۔۔ شکر ہے کہ آگئی ۔۔ ورنہ آجکل ہماری شرم بھی کے ای ایس سی  اور واپڈا سپانسرڈ شرم ہوگئی ہے ۔۔ بجلی کی طرح آتی ہے، پھر گھنٹوں غائب رہتی ہے۔۔۔
شرم اس لیئے آئی کہ ہم سیاستدانوں کو تو لاشوں پہ سیاست کرنے پہ خوب لعن طعن کرتے ہیں، مگر ۔۔۔ لاشوں کی بریکنگ کرتے وقت، ذرا بھی احساس نہیں رکھتے ۔۔ کہ یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟ اور پھر اس بات کو ذہنی ناپختگی سے پھر جوڑوں گا، کہ جو منہ میں آتا ہے ہم بولتے چلے جاتے ہیں، کہ ناظرین آپ دیکھ سکتے ہیں، یہاں لاشیں ہی لاشیں ہیں، جسمانی اعضا بکھرے پڑے ہیں، اور نہ جانے کیا کیا ۔۔۔۔

مجھے بطور صحافی، نیوز اینکر، اور ہمیں بطور ذمہ دار شہری ہونے کہ، اپنی سوچ کا پختہ کرنا ہے ۔۔۔۔ کم از کم یہ تو ضرور کرنا ہے، کہ آنے والی نسل، یعنی گھر میں موجود بچوں کو یہ نہیں سکھانا کہ اہل  
تشیع افراد کو کھٹمل کہتے ہیں ۔۔ یقین مانیں ۔۔ بہت فرق پڑے گا ۔۔ بہت ۔۔۔۔۔

کم از کم اتنا تو فرق پڑنا شروع ہوا ہے کہ ہم نے اظہار یکجہتی کا آغاز کیا ۔۔۔ 




Thursday 14 February 2013

پنک پینتھر کارٹون والی ٹرین سروس


کارٹون تو سب کو اچھے لگتے ہیں، تو مجھے بھی اچھے لگتے ہیں ۔۔ میں تو اب بھی دیکھتا ہوں ۔۔۔ بچپن سے۔ تو جب میں تیسری جماعت میں تھا، میرے برابر میں بیٹھنے والے بچے کے پاس پنک پینتھر والا انسٹرومنٹ باکس تھا، مہنگا والا، ٹرین جیسا انسٹرمنٹ باکس، شروع میں پنک پینتھر کے منہ والا انجن، جس میں شارپنر لگا تھا، اور سامنے سے کھلنے پہ ربر بھی باہر آجاتا تھا، پھر ایک پوری بوگی تھی جس میں اسکیل مارکر اور دیگر لوازمات ہوا کرتے تھے۔ اور مجھ ندیدے کی نیت ہر وقت اس باکس پہ لگی رہتی تھی، کتنا اچھا تھا ناں ۔۔ پنک پینتھر کارٹون والی ٹرین والا باکس



مجھے یہ تو نہیں پتہ تھا کہ میں کبھی ایسے کارٹون والی ٹرین لے سکوں گا یا نہیں، ہاں لیکن مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا، کہ کارٹون جیسے وزرا، پاکستان ریلوے کا حال بھی کارٹون جیسا کردیں گے۔ کیوں کہ، کارٹون میں تو سپر مین، ٹرین کو پٹڑی کے اکھڑے ہوئے حصہ تک پہنچنے سے پہلے اپنے بازووں میں اٹھا سکتا ہے، لیکن حقیقت میں، پنک پینتھر جیسی بولی بولنے والے بلور صاحب کے محکمہ کے ملازمین نے سپر مین کو بھی مات دے دی

منڈی بہاءالدین میں محکمہ ریلوے کے حکام نے سرگودھالالہ موسٰی ریلوے ٹریک کا  کچھ حصہ ٹوٹ جانے پر ٹریک جوڑنے کیلیے لکڑی کا تختہ رکھ کرکپڑے کی پٹی باندھ دی ۔۔۔ جی ہاں، یقین کرلیں، کہ ٹریک جوڑنے کیلیئے، لکڑی کا تختہ رکھ کر کپڑے کی پٹی باندھ دی۔

سرگودھالالہ موسٰی ریلوے ٹریک کا محلہ منظورآبادکے قریب تقریباًسات سے آٹھ انچ کاحصہ ٹوٹ کاغائب ہوگیا،جس کی اطلاع ملنے پرمحکمہ ریلوے کے حکام نے روایتی بے حسی کامظاہرہ کرتے ہوئے ٹوٹے ہوئے ٹریک کولوہے کی بجائے لکڑی کاٹکڑارکھ کراس کی مرہم پٹی کردی،اوراپنے سرکاری فرائض کوپوراکرکےچلتے بنے۔۔




دیکھو یار، لوگ چاند پہ پہنچ گئے، اور ہم، ٹریک کو لکڑی سے جوڑ جاڑ کر، لوگوں کو جنت بھیج رہے ہیں۔ ارے میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ، چار کروڑ بوگس ووٹس کے ستون پہ کھڑی حکومت، اس واقعہ کی جسٹیفیکشن بھی دے ہی ڈالے گی۔۔۔ وزارت خزانہ کہتی کہ لوہا چھوڑ کہ لکڑی کا استعمال،بچت کو فروغ دے گا۔۔۔ اورعوامی حکومت کا قومی بچت اسکیم پروگرام سرخرو ہوجائے گا۔ وزارت خزانہ نے تو رولہ ڈال ہی دینا تھا ۔۔ کالعدم تحریک فلاں نے ذمہ داری قبول کرلی، ایسے مزید واقعات کی پیشگی اطلاع ہے اس لیئے، صبح آٹھ سے رات دس بجے تک، لکڑی سروس بند ۔۔۔ اوہ نہیں ۔۔۔ لوہا سروس بند ۔۔۔۔۔ ارے نہیں نہیں، ریلوے سروس بند ۔۔۔۔ اتنی کنفیوژن اس لیئے کہ،  بےحال ریلوے سروس بحال ہی کب ہے؟


تو بھائیوں اور بہنوں، جب تک پنک پنتھر ٹائپ وزرا، ریلوے جیسے محکموں کو ڈوبتی نیہ بنا کر اس کے ناخدا بنے رہیں گے، تب تک ٹرینوں اور پٹڑیوں کی مرہم پٹی، لکڑی رکھ کر کپڑا باندھ کہ ہوتی رہے گی۔ جی ہاں، تب تک عوام، پنسل بن کے پنک پینتھر کے منہ میں لگے شارپنر سے چھیلے جاتے رہیں گے۔۔

Tuesday 12 February 2013

آل پاکستان بریانی موومنٹ


-->
بریانی بریانی ہوتی ہے، گھر کی ہو یا جلسہ کی، اور کیوں کہ عوامی حکومت کے عوامی فیصلوں کی بدولت عوامی مہنگائی نے اس لذیذ پکوان کو عوام سے تھوڑا تھوڑا دور کردیا ہے، اس لیئے سیاسی جلسوں میں اس نعمت کا ہونا، اور وہ بھی مفت ۔۔۔۔ موجاں ہی موجاں ۔۔۔۔۔


اب سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں کارکن صبح سے ہی جمع ہونا شروع ہوجاتے ہیں،، اور قائدین کے خطاب تک ان کا بھوک سے برا حال ہوجاتا ہے۔۔۔ ایسے میں اگر کھانا نظر آجائے تو پھر کون رکتا ہے۔۔ کچھ ایسا ہی ہوا رحیم یار خان میں مسلم لیگ ن کے جلسے میں بھی۔۔


رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کے خطاب کے لیے پنڈال سجایا گیا،،کارکن بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔۔ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس بار لوگوں میں کھانا تقسیم کرنے کے لیے بریانی کے ڈبے تیار کیے گئے تھے۔۔۔۔




  لیکن بھوک سے نڈھال کارکن بریانی کی خوشبو سونگھتے سونگھتے بریانی کے قریب پہنچ ہی گئے، پھر کیا تھا ، بھوک سے بے چین کارکنوں نے کھانے پردھاوا بول دیا۔۔۔

 کسی کو پڑے ڈنڈے اور تو کسی نے کھائیں لاٹھیاں ۔۔۔۔ لیکن بریانی کے ڈبے سے سب چمٹے رہے۔۔۔ اس تصویر کو دیکھ کر، نہ جانے کیوں مجھے وہ گانا یاد آگیا ۔۔۔ دل چیز کیا ہے، آپ میری جان لیجئیے، بس اک واری مینوں بریانی دا ڈبہ، کھان دیجیئے!



 خوش نصیب وہی ٹھہرا جو بریانی حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔۔ مگر ساتھیوں کی چھینا جھپٹی میں کئی ڈبے زمین پر بھی گرگئے۔۔

اب میں، نہ ہی اس بحث میں پڑوں گا کہ اتنی ساری بریانی کےلیئے اتنے سارے پیسے کہاں سے آئے؟ نہ ہی میں کسی نام نہاد معاشرتی سائینسدان کی طرح ڈبوں سے گرتی بریانی کو معاشرے کے گرتے ہوئے اخلاقی اقدار سے جوڑنے کی کوشش کروں گا۔۔۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ، اگر میں ان کی جگہ ہوتا، تو کیا میں بھی؟ کیا آپ بھی؟


Sunday 10 February 2013

میں تو دیکھوں گا ۔۔۔ تم بھی دیکھو گے....


انتخابات کوئی بھی جیتے، میری بلا سے! برسر اقتدار کوئی بھی آئے، مجھے کیا؟ اب یہ بھی پوچھ لیں کہ میری بلا سے کیوں اور مجھے کچھ کیوں نہیں؟ وہ اس لیئے کہ جب انھیں لوگوں نے واپس پلٹ کے آجانا ہے جو لاشوں کی سیاست اور لاشوں پہ سیاست کرتے ہوں، قوم کو سادگی کا درس دے کر خود اپنے جلسوں میں کنڈے کی بجلی پہ چلا چلا کہ کہہ رہے ہوں کہ حکومت بجلی بحران کی ذمہ دار ہے، اور روٹی کپڑا مکان کا وعدہ والے، پھر کہہ دیں کہ سائیں، وعدہ کوئی قرآن و حدیث تو نہیں! تو پھر انتخابات کوئی بھی جیتے، میری بلا سے! برسر اقتدار کوئی بھی آئے، مجھے کیا؟

ہاں لیکن اگر لوگ آئیں مجھ جیسے، آپ جیسے، جو سی این جی کی لائن میں گھنٹوں جتے رہیں، جو دہرے کیا، تہرے بلکہ تہہ در تہہ تعلیمی نظام کی گنا مشین میں پسنے کے باوجود ملک میں رہنے کو ترجیح دیں، اور جو بجلی پانی گیس جیسے من و سلویٰ کو ایسے ترسا دئیے جائیں جیسے یہ نعمتیں ان کے لیئے شجرہ ممنوعہ ہوں، پیچھے مڑ کے ان نعمتوں کی جانب دیکھا تو پتھر کے ہوجائیں! ہاں اگر ایسے لوگ آئیں تو مزہ آئے ناں!



ٹیکسی ڈرائیور ہوں ، پشاور میں جائنٹ سیکرٹری کا امیدوار ہوں


نجی اسکول کا پرنسپل ہوں، ٹاون ٹو کا صدارتی امیدوار ہوں


ڈرائیور ہوں چینج کے لیے انتخابات لڑ رہا ہوں


میں دکاندار ہوں ہم روایتی سیاست دانوں سے تنگ آ چکے ہیں
  
یقین مانیئے کہ جتنا سکون ان غیر روایتی امیدواروں کی امیدوں کو دیکھ کر ہوتا ہے، اتنا ہی سکون ان کے حلقہ والوں کو ہوگا، گر یہ کامیاب ہوئے، نہیں بھی ہوئے تو کیا ہوا، روایتی پیری مریدی جاگیرداری سیاست کی اس بلٹ پروف گاڑی کو کچھ تو ڈینٹ لگے گا! بطور ڈرائیور انھیں اندازہ ہوگا کہ گھنٹوں سی این جی کی لائن میں لگے رہنا اور باری آنے پر پیچھے سے پریشر کی کمی کا سامنا کرنے میں کیسا لگتا ہے ۔۔ بطور استاد انھیں اندازہ ہوگا کہ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے بجائے جب روایت کے نام پہ ہتھیار ہمارا زیور ہے کے بھدے اصولوں سے معصوم ذہنوں کو معدوم کیا جاتا ہے، تو کیسا لگتا ہے


ہوا کچھ یوں کہ پشاور میں تحریک انصاف نے ضلع اور ٹاؤنزکی سطح پر انتخابات منعقد کیے، جس میں 48 عہدوں پرکم و بیش سوامیدوار میدان میں اترے۔  انتخابات میں ایک طرف  امیر اور مشہور گھرانوں کے افراد بطور امیدوار نظر آئے تو ساتھ ہی ٹیکسی ڈرائیورز، دکاندار اور شعبہ تعلیم سے وابستہ  اشخاص بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
شاہ نواز، جو ٹیکسی چلاتا ہے، پشاور کے جوائنٹ سیکریٹری کا امیدوار ہے، شاہ نواز کہتا ہے کہ اسے امید ہے کہ تبدیلی ضرور آئے گی








 








ایسے ہی خیالات اسکول پرنسپل ہدایت الرحمان صاحب کے بھی ہیں، جو ٹاؤن ٹو کے صدارتی امیدوار ہیں



جبکہ بی اے پاس توصیف پر عزم ہیں کہ کوئی بھی مد مقابل آئے،
 اب فتح ان ہی کی ہوگی اور وہ چینج یعنی تبدیلی کیلیئے کھڑے ہوئے ہیں

گل حبیب دکانداری کرتے ہیں، اور سیکرٹری لیبر کے امیدوار ہیں


 اب ان افراد کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، مجھے صرف اس بات کی خوشی ہے کہ سیاسی جماعتوں نےعام آدمی کے ساتھ ملیچھ جیسا سلوک کرنا تو ترک کیا، چاہے تحریک انصاف ہو یا کوئی بھی جماعت۔۔۔ کم از کم عام آدمی کو آدمی تو سمجھا گیا ۔۔۔ ورنہ اس سے پہلے فقط ووٹ کی پرچی تک محدود رہنے والے اس چوپائے کو محظ کاغذ کا ٹکڑا ہی سمجھا جاتا تھا ۔۔۔ شاید پہلی بار میں اتنی بڑی تبدیلی نہ آسکے، شاید یہ تمام افراد ہار جائیں، لیکن ۔۔۔۔ میں تو، ان انتخابات میں ۔۔ انھیں اور ان جیسوں کو، بھرپور طریقہ سے لڑتے ہوئے ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔ میں تو دیکھوں گا، میں تو دیکھوں گا ۔۔۔ تم بھی دیکھو گے۔۔۔۔۔