Tuesday 12 March 2013

خاموش خوشی ۔۔۔۔



یہ کہانی، میری نہیں، سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پہ ایک دوست کی ہے ۔۔۔۔ ہاں مکمل انصاف تو نہیں، لیکن کوشش کروں گا کہ اپنے الفاظ سے ان جذبات کی کچھ ترجمانی کرسکوں، جن سے ہم رفتہ رفتہ عاری ہوتے جارہے ہیں
وہ ہی دن، وہ ہی کام اور وہ ہی معمول ۔۔۔ میں اپنا روز مرہ کا کام نمٹا رہی تھی، کہ میری نظر اس چھوٹی سی بچی پہ پڑی ۔۔۔ نہ جانے کیوں وہ اپنا منہ بسورے جارہی تھی، تجسس کے مارے میں آگے بڑھی تو پتہ چلی کہ معصوم ننھی سی جان رو رہی ہے، لیکن خاموشی سے ۔۔۔ چھوٹا بچہ، اور خاموشی سے روئے ۔۔۔۔ تعجب ہوا ۔۔۔ بچی کے چہرا لال ہورہا تھا ۔۔۔ اور آنسو ڈب ڈب گر رہے تھے ۔۔ کچھ دیر بعد مجھے سمجھ آیا کہ شاید بچی کھو گئی ہے
اب میں نے بچی کے والدین کی کھوج شروع کی، اور دکان میں موجود ہر فرد سے دریافت کیا، لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔ بالآخر میں تھک ہار کے بیٹھ گئی، ہاں میں تھک گئی تھی، بچی کے والدین کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے، میں تھک گئی تھی، بچی کے چہرے پہ مسکان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے ۔۔۔۔
اسی اثنا میں، کسی نے پیچھے سے میرا سر تھپھپایا ۔۔۔ میں نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو ایک عورت تھی، جس نے بچی کی جانب اشارہ کیا، مسکرائی اور انگوٹھا کچھ اس طرح اٹھایا جیسے شکریہ کہہ رہی ہو۔۔۔ یہ تھا وہ لمحہ جب مجھے احساس ہوا کہ، ماں اور بیٹی دونوں قوت سماعت سے محروم تھیں ۔۔۔ بلکہ پوری فیملی ہی ۔۔۔۔ باپ بھی اور چھوٹا بیٹا بھی۔۔۔۔
یہ سب، ایک دوسرے سے ایک لفظ کہے بغیر بھی، ایک دوسرے سے کتنے مطمئن تھے ۔۔۔ ایک مکمل خوش باش گھرانہ
کرن خان کے جذبات کیا ہوں گے، یہ ان کے علاوہ کوئی نہیں بتا سکتا ۔۔۔۔ ہاں لیکن میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ، آج کے اس معاشرے میں، جہاں ہم سب ایک دوسرے کو زبان کی کاٹ سے مات دینے کی کوشش میں لگے ہیں، اور ایک دوسرے کو مات دے کر، خوش رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ اگر قوت گویائی سے محروم لوگ بھی خوش رہ سکتے ہیں، تو اے خدا ۔۔۔ ہم سب سے زبان چھین لے ۔۔۔ بس خوشی عطا کر 

No comments:

Post a Comment