کراچی یوتھ اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا اور تیز بارش تھی، میں گھر سے لڑ بھِڑ کر نکلا تھا، کیونکہ انھوں نے فون پہ کہا دیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے اجلاس ہو کر رہے گا۔ میں رکشہ پہ اے جی سندھ بلڈنگ پہنچا، اور اس سوچ میں بھیگتا ہوا اندر بنے ریڈیو پاکستان کے آڈیٹوریم کی طرف بڑھنے لگا کہ شاید میں ہی پہلے پہنچا ہوں، لیکن وہ وہاں پہلے سے موجود تھے۔ میں بات کر رہا ہوں ۔۔۔ محترم اظفر رضوی بھائی کی ۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ بچوں کا استقبال کرنے کے لیئے بارش میں نہاتا وہ شخص، گزشتہ رات خون میں نہلادیا جائے گا ۔۔
اس قتل کو کیا نام دوں؟ ایک استاد کا قتل؟ ایک دانش ور کا قتل؟ ایک سماجی کارکن کا قتل؟ اور کوئی اسے کوئی بھی نام دے ۔۔ میرے لیئے، اور کراچی کے نوجوانوں کے لیئے یہ ایک ایسے شخص کا قتل ہے، جس نے ان کی آواز کو پرواز بخشی۔ وہ کل کراچی تقریری مقابلہ ہو یا کراچی یوتھ اسمبلی کا قیام، اظفر رضوی کا یہ ہی کہنا تھا کہ اس شہر میں جتنا ٹیلنٹ ہے، اس کو بغیر کسی تفریق کے آگے لانا ہے۔ اور یہ ٹیلنٹ محض اسکول کالجوں میں نہیں، مدارس میں بھی ہے، اس لیئے کراچی میں پہلی بار ایسے تقریری مقابلے ہوئے جہاں اسکول کالج جامعات اور مدارس کے بچے اکھٹے ہوئے اور اپنی اپنی سوچ کے ساتھ آگے بڑھے، آگے بڑھے اس امید کے ساتھ اختلافِ رائے ہی اصل استاد ہے، اور برداشت ہی اصل تجربہ۔
اظفر بھائی کی کراچی کے نوجوانوں کے لیئے کاوش، جس سے میں بھی مستفید ہوا ڈھاکہ گروپ آف ایجوکیشن کے تحت ہونے والا پہلا کُل کراچی تقریری مقابلہ |
Ye Woh Ustaad hain jinho ne hamesha ILM DOSTI, QALAM DOSTI, KITAAB DOSTI ka dars dia..
ReplyDeleteyeh jumla hamesha yad rahega!
Deletevery true..
ReplyDelete